سنن النسائي - حدیث 3238

كِتَابُ النِّكَاحِ التَّزْوِيجُ فِي شَوَّالٍ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تُحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِي شَوَّالٍ فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَتْ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3238

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل شوال میں نکاح کرنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے شوال میں نکاح فرمایا۔ اور شوال میں ہی مجھے آپ نے گھر بسایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پسند فرماتی تھیں کہ ان کی رشتہ دار عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو۔ (آپ فرماتی تھیں:) رسول اللہﷺ کی بیویوں میں سے کون مجھ سے بڑھ کر آپ کے ہاں خوش نصیب ثابت ہوئی؟
تشریح : 1) شوال کا لفظی معنی ذرا قبیح ہے‘ اس لیے جاہلیت کے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے اور اس میں شادی بیااہ کے قائل نہ تھے جیسا کہ آج کل لوگ محرم میں شادی بیاہ کو جائز نہیں سمجھتے کہ یہ سوگ کا مہینہ ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو جوڑا شوال میں شادی کرتا ہے۔ ان میںباہمی اختلاف‘ دشمنی وار نفرت پھوٹ پڑتی ہے اور وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام ایسے توہمات کا قائل نہیں۔ وہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی ذات وبرکات کے سپرد کرتا ہے‘ لہٰذا ایک مسلمان کو کسی مہینے میں شادی بیاہ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ ) (2) ’’پسند فرماتی تھیں‘‘ حضرت عائشہؓ کا یہ پسند فرمانا جاہلیت کے نظریے کی تردید کی بنا پر تھا اور اگلی بات ’’کون مجھ سے…‘‘ بھی اسی لیے تھی۔ (3) بعض امام‘ اشخاص‘ اوقات اور مہینوں سے نحوست پکڑنا جاہلیت کا کام ہے۔ کوئی وقت منحوس نہیں۔ سارے وقت اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ (4) ’’گھر بسانا‘‘ یعنی تین سال بعد۔ (5) ’’خوش نصیب‘‘ رسول اللہﷺ کی طرف سے جو محبت‘ توجہ اور احترام حضرت عائشہؓ کو حاصل ہوا‘ کسی اور ام المومنین کو حاصل نہ ہوا۔ اور میں ان کی ذہانت‘ فطانت‘ ادب اور خلوص کو زیادہ دخل ہے۔ امت کی تعلیم خصوصاً خانگی امور کے بارے میں انہی کے ساتھ خاص ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ 1) شوال کا لفظی معنی ذرا قبیح ہے‘ اس لیے جاہلیت کے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے اور اس میں شادی بیااہ کے قائل نہ تھے جیسا کہ آج کل لوگ محرم میں شادی بیاہ کو جائز نہیں سمجھتے کہ یہ سوگ کا مہینہ ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو جوڑا شوال میں شادی کرتا ہے۔ ان میںباہمی اختلاف‘ دشمنی وار نفرت پھوٹ پڑتی ہے اور وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام ایسے توہمات کا قائل نہیں۔ وہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی ذات وبرکات کے سپرد کرتا ہے‘ لہٰذا ایک مسلمان کو کسی مہینے میں شادی بیاہ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ ) (2) ’’پسند فرماتی تھیں‘‘ حضرت عائشہؓ کا یہ پسند فرمانا جاہلیت کے نظریے کی تردید کی بنا پر تھا اور اگلی بات ’’کون مجھ سے…‘‘ بھی اسی لیے تھی۔ (3) بعض امام‘ اشخاص‘ اوقات اور مہینوں سے نحوست پکڑنا جاہلیت کا کام ہے۔ کوئی وقت منحوس نہیں۔ سارے وقت اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ (4) ’’گھر بسانا‘‘ یعنی تین سال بعد۔ (5) ’’خوش نصیب‘‘ رسول اللہﷺ کی طرف سے جو محبت‘ توجہ اور احترام حضرت عائشہؓ کو حاصل ہوا‘ کسی اور ام المومنین کو حاصل نہ ہوا۔ اور میں ان کی ذہانت‘ فطانت‘ ادب اور خلوص کو زیادہ دخل ہے۔ امت کی تعلیم خصوصاً خانگی امور کے بارے میں انہی کے ساتھ خاص ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔