سنن النسائي - حدیث 3231

كِتَابُ النِّكَاحِ تَزْوِيجُ الزَّانِيَةِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَغَيْرُهُ عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ وَعَبْدِ الْكَرِيمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ يَرْفَعُهُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَارُونُ لَمْ يَرْفَعْهُ قَالَا جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ عِنْدِي امْرَأَةً هِيَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَهِيَ لَا تَمْنَعُ يَدَ لَامِسٍ قَالَ طَلِّقْهَا قَالَ لَا أَصْبِرُ عَنْهَا قَالَ اسْتَمْتِعْ بِهَا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِثَابِتٍ وَعَبْدُ الْكَرِيمِ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَهَارُونُ بْنُ رِئَابٍ أَثْبَتُ مِنْهُ وَقَدْ أَرْسَلَ الْحَدِيثَ وَهَارُونُ ثِقَةٌ وَحَدِيثُهُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3231

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل بدکار عورت سے شادی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرے نکاح میںایک عورت ہے جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیاری ہے مگر وہ کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو نہیں روکتی۔ آپ نے فرمایا:’’اسے طلاق دے دے۔‘‘ وہ کہنے لگا: میں اس سے صبر نہیں کرسکتا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر اسی طرح فائدہ اٹھاتا رہ۔‘‘ ابوعبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ عبدالکریم (راوی) قوی نہیں ہے‘ جبکہ ہارون بن رئاب اس سے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے۔ چونکہ ہارون ثقہ ہے‘ لہٰذا عبدالکریم کے بجائے س کی حدیث صحیح کہلانے کے زیادہ لائق ہے۔
تشریح : (1) ]لاَتَرُدُّ لاَمِسٍ[ اس کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ عورت چھیڑ چھاڑ کو برا محسوس نہیں کرتی تھی اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ بعض نے اس سے مراد مالی سخاوت لی ہے‘ یعنی وہ عورت بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتی تھی۔ یہ بات تو پکی ہے وہ عورت فاحشہ نہ تھی ورنہ رسول اللہﷺ اسے اپنے پاس ٹھہرائے رکھنے کا اختیار کبھی نہ دیتے کیونکہ دینی مسائل میںآپ وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: {وَماَ یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ} اور وحی میں فحاشی کی ممانعت ہے اجازت نہیں۔ {وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ} (الأعراف ۷:۲۸) نیز ایسی بیوی کو اگر خاوند برداشت کرے تو وہ دیوث کہلاتا ہے۔ اور دیوث کے بارے میں وعید ہے۔ سخاوت والا مفہو م بھی معتبر نہیں‘ اس لیے کہ سخاوت مندوب ومطلوب چیز ہے۔ ایسی خاتون کو تنبیہ کی جاسکتی ہے‘ خاوند اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے اور اس کا خرچ تو کم کرسکتا ہے‘ لیکن اس کی وجہ سے طلاق کسی صورت بھی جائز نہیں‘ نہ نبیﷺ اس کا حکم ہی دے سکتے ہیں‘ نیز اگر یہ معنی ہوتے تو ] یَدَ لاَمِسٍ[ کی بجائے یَدَ مُلْتَمِسٍ ہونا چاہیے تھا کیونکہ سائل کو متلمس کہتے ہیں لامس نہیں۔ بہر حال اس کا راجح مفہوم یہ ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی کی طبیعت اور مزاج کا علم تھا۔ اس نے قرآئن کی رو سے یہ اندازہ لگایا کہ اگر کوئی اسے چھیڑنا چاہے تو یہ اسے روک نہیں سکے گی۔ فی الواقع ایسا ہوا نہیں تھا۔ اس خدشے کا اظہار انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کیا تو اس خدشے سے بچنے کے لیے آپ نے اسے الگ کردینے کا مشورہ دیا‘ پھر جب اس نے اس سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے عقد میں رکھنے کا مشورہ دیا کیونکہ محض وہم اور اندیشے کی بنا پر اسے الگ کردینا درست نہ تھا۔ واللہ اعلم۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اور شیخ ایتوبی نے بھی اسی مفہوم کو راجح قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذحیرۃ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی: ۲۷/۱۰۵۔۱۰۷) (2) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت مرسل صحیح ہے‘ یعنی اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر صحیح نہیں۔ بعض نے اس حدیث کو موضوع قراردیا ہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درست یہ ہے کہ یہ حدیث متصلاً بھی حسن صحیح ہے کیونکہ یہ دیگر صحیح سندوں سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متصلاً ثابت ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۳۴۹۴‘ ۳۴۹۵۔ (1) ]لاَتَرُدُّ لاَمِسٍ[ اس کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ عورت چھیڑ چھاڑ کو برا محسوس نہیں کرتی تھی اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ بعض نے اس سے مراد مالی سخاوت لی ہے‘ یعنی وہ عورت بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتی تھی۔ یہ بات تو پکی ہے وہ عورت فاحشہ نہ تھی ورنہ رسول اللہﷺ اسے اپنے پاس ٹھہرائے رکھنے کا اختیار کبھی نہ دیتے کیونکہ دینی مسائل میںآپ وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: {وَماَ یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ} اور وحی میں فحاشی کی ممانعت ہے اجازت نہیں۔ {وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ} (الأعراف ۷:۲۸) نیز ایسی بیوی کو اگر خاوند برداشت کرے تو وہ دیوث کہلاتا ہے۔ اور دیوث کے بارے میں وعید ہے۔ سخاوت والا مفہو م بھی معتبر نہیں‘ اس لیے کہ سخاوت مندوب ومطلوب چیز ہے۔ ایسی خاتون کو تنبیہ کی جاسکتی ہے‘ خاوند اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے اور اس کا خرچ تو کم کرسکتا ہے‘ لیکن اس کی وجہ سے طلاق کسی صورت بھی جائز نہیں‘ نہ نبیﷺ اس کا حکم ہی دے سکتے ہیں‘ نیز اگر یہ معنی ہوتے تو ] یَدَ لاَمِسٍ[ کی بجائے یَدَ مُلْتَمِسٍ ہونا چاہیے تھا کیونکہ سائل کو متلمس کہتے ہیں لامس نہیں۔ بہر حال اس کا راجح مفہوم یہ ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی کی طبیعت اور مزاج کا علم تھا۔ اس نے قرآئن کی رو سے یہ اندازہ لگایا کہ اگر کوئی اسے چھیڑنا چاہے تو یہ اسے روک نہیں سکے گی۔ فی الواقع ایسا ہوا نہیں تھا۔ اس خدشے کا اظہار انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کیا تو اس خدشے سے بچنے کے لیے آپ نے اسے الگ کردینے کا مشورہ دیا‘ پھر جب اس نے اس سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے عقد میں رکھنے کا مشورہ دیا کیونکہ محض وہم اور اندیشے کی بنا پر اسے الگ کردینا درست نہ تھا۔ واللہ اعلم۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اور شیخ ایتوبی نے بھی اسی مفہوم کو راجح قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذحیرۃ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی: ۲۷/۱۰۵۔۱۰۷) (2) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت مرسل صحیح ہے‘ یعنی اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر صحیح نہیں۔ بعض نے اس حدیث کو موضوع قراردیا ہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درست یہ ہے کہ یہ حدیث متصلاً بھی حسن صحیح ہے کیونکہ یہ دیگر صحیح سندوں سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متصلاً ثابت ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۳۴۹۴‘ ۳۴۹۵۔