سنن النسائي - حدیث 3230

كِتَابُ النِّكَاحِ تَزْوِيجُ الزَّانِيَةِ حسن الإسناد أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ مَرْثَدَ بْنَ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ وَكَانَ رَجُلًا شَدِيدًا وَكَانَ يَحْمِلُ الْأُسَارَى مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ فَدَعَوْتُ رَجُلًا لِأَحْمِلَهُ وَكَانَ بِمَكَّةَ بَغِيٌّ يُقَالُ لَهَا عَنَاقُ وَكَانَتْ صَدِيقَتَهُ خَرَجَتْ فَرَأَتْ سَوَادِي فِي ظِلِّ الْحَائِطِ فَقَالَتْ مَنْ هَذَا مَرْثَدٌ مَرْحَبًا وَأَهْلًا يَا مَرْثَدُ انْطَلِقْ اللَّيْلَةَ فَبِتْ عِنْدَنَا فِي الرَّحْلِ قُلْتُ يَا عَنَاقُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ الزِّنَا قَالَتْ يَا أَهْلَ الْخِيَامِ هَذَا الدُّلْدُلُ هَذَا الَّذِي يَحْمِلُ أُسَرَاءَكُمْ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ فَطَلَبَنِي ثَمَانِيَةٌ فَجَاءُوا حَتَّى قَامُوا عَلَى رَأْسِي فَبَالُوا فَطَارَ بَوْلُهُمْ عَلَيَّ وَأَعْمَاهُمْ اللَّهُ عَنِّي فَجِئْتُ إِلَى صَاحِبِي فَحَمَلْتُهُ فَلَمَّا انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى الْأَرَاكِ فَكَكْتُ عَنْهُ كَبْلَهُ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْكِحُ عَنَاقَ فَسَكَتَ عَنِّي فَنَزَلَتْ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ فَدَعَانِي فَقَرَأَهَا عَلَيَّ وَقَالَ لَا تَنْكِحْهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3230

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل بدکار عورت سے شادی حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (عبدالمطلب بن عمرو رضی اللہ عنہ ) سے راویت ہے کہ حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بہت بہادر اور قوری شخص تھے۔ وہ مکہ مکرمہ سے مسلمان قیدی اٹھا کر میدینہ لے آتے تھے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے ایک مسلمان قیدی سے طے کیا کہ میں تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا۔ مکہ میں ایک بدکار عورت رہتی تھی جس کا نام عناق تھا۔ وہ (دورجاہلیت میں) مجھ سے ’’دوستانہ‘‘ تعلقات رکھتی تھی۔ (اس دن) وہ نکلی تو اس نے ایک دیوار کے سائے میں مجھے کھڑا دیکھا۔ کہنے لگی: کون! مرثد ہے؟ خوش آمدید اور مرحبا ہو اے مرثد! آؤ گھر چلیں‘ رات ہمارے پاس ٹھہرنا۔ میں نے کہا: اے عناق رسول اللہﷺ نے زنا کو حرام قراردیا ہے۔ اس نے شور مچادیا: اے خیموں میں رہنے والو! یہ وہ خارپشت ہے جو تمہارے قیدی مکہ سے اٹھا کر مدینہ لے جاتا ہے۔ میں خندمہ پہاڑ کی طرف بھاگ نکلا (اور ایک غار میں جاچھپا)۔ آٹھ آدمی میرے پیچھے بھاگے۔ وہ آکر (عین اس غار کے اوپر) میرے سر کی سیدھ میں کھڑے ہوگئے اور پیشاپ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ ان کا پیشاپ میرے اوپر گرتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مجھ سے اندھا کردیا (اور وہ ناکام واپس چلے گئے۔) میں پھر اپنے ساتھی کے پاس پہنچا اور اسے اٹھایا۔ جب میں اسے اٹھا کر پیلو کے درختوں کے جھنڈ میں اسے لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آگیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں عناق سے نکاح کرلوں؟ آپ خاموش رہے‘ پھر یہ آیت اتری: {وَالزَّانِیَۃُ لاَیَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ…} ’’زانی عورت سے زانی مرد یا مشرک ہی نکاح کرتا ہے۔‘‘ آپ نے مجھے بلایا‘ یہ آیت میرے سامنے تلاوت فرمائی‘ اور فرمایا: ’’تو اس سے نکاح مت کر۔‘‘
تشریح : 1) ’’قوی اور بہادر‘‘ اپنے دور جاہلیت میںیہ چور اور ڈاکو تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی عادت کے پیش نظر انہیں مسلمان قیدی اٹھالانے پر مقرر فرمادیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ انہوں نے یہ خدمت لوجہ اللہ انجام دی۔ (2) ’’خارپشت‘‘ اردو میں اسے سیہ کہتے ہیں جو اپنے جسم کے کانٹوں سے اپنا دفاع کرتی ہے۔ تشبیہ رات کے وقت آنے میں ہوگی۔ (3) ’’نکاح کرلوں‘‘ تاکہ پردہ بھی رہے اور قیدی بھی آزاد ہوتے ہیں۔ وہ شور بھی نہیں مچائے گی۔ (4) معلوم ہوا مومن شخص مشرک زانیہ سے نکاح نہیں کرسکتا‘ البتہ اگر وہ مسلمان ہوجائے اور زنا سے توبہ کرلے تو اس سے نکاح جائز ہے۔ مسلمان بدکار عورت اگر زنا پر مصر ہوتو اس سے بھی مومن صالح کو نکاح کرنا جائز نہیں۔ توبہ کی صورت میںکوئی حرج نہیں۔ ’’زانیہ‘‘ اسی وقت تک کہا جائے گا جب تک وہ زنا پر قائم رہے۔ چھوڑ دے اور توبہ کرلے تو وہ زانیہ نہیں۔ 1) ’’قوی اور بہادر‘‘ اپنے دور جاہلیت میںیہ چور اور ڈاکو تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی عادت کے پیش نظر انہیں مسلمان قیدی اٹھالانے پر مقرر فرمادیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ انہوں نے یہ خدمت لوجہ اللہ انجام دی۔ (2) ’’خارپشت‘‘ اردو میں اسے سیہ کہتے ہیں جو اپنے جسم کے کانٹوں سے اپنا دفاع کرتی ہے۔ تشبیہ رات کے وقت آنے میں ہوگی۔ (3) ’’نکاح کرلوں‘‘ تاکہ پردہ بھی رہے اور قیدی بھی آزاد ہوتے ہیں۔ وہ شور بھی نہیں مچائے گی۔ (4) معلوم ہوا مومن شخص مشرک زانیہ سے نکاح نہیں کرسکتا‘ البتہ اگر وہ مسلمان ہوجائے اور زنا سے توبہ کرلے تو اس سے نکاح جائز ہے۔ مسلمان بدکار عورت اگر زنا پر مصر ہوتو اس سے بھی مومن صالح کو نکاح کرنا جائز نہیں۔ توبہ کی صورت میںکوئی حرج نہیں۔ ’’زانیہ‘‘ اسی وقت تک کہا جائے گا جب تک وہ زنا پر قائم رہے۔ چھوڑ دے اور توبہ کرلے تو وہ زانیہ نہیں۔