سنن النسائي - حدیث 323

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب الصَّلَوَاتِ بِتَيَمُّمٍ وَاحِدٍ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 323

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ ایک تیمم سے کئی نمازیں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پاک مٹی مسلمان کے لیے ذریعۂ طہارت ہے، خواہ دس سال پانی نہ ملے۔‘‘
تشریح : (۱) طیب کا لفظ دلیل ہے کہ جس مٹی سے تیمم مقصود ہے، وہ پاک ہونی چاہیے۔ (۲) تیمم بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کا ہم مرتبہ ہے، لہٰذا جب تک تیمم قائم ہے اور پاین نہیں ملتا، اس کے ساتھ کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے جب کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تیمم مجبوری کی طہارت ہے۔ مجبوری والی چیز ضرورت کے بعد ختمہو جاتی ہے، لہٰذا جب نماز پڑھی گئی تو مجبوری ختم ہوگئی، لہٰذا تیمم بھی ختم۔ نئی نماز کے وقت دوبارہ پانی تلاش کیا جائے گا، نہ ملے تو پھر تیمم کیا جائے گا۔ لیکن ایک نماز پڑھنے کے بعد تیمم کے ختم ہونے کی کوئی صریح صحیح دلیل موجود نہیں، صرف عقلی باتیں ہیں، جب شریعت نے مجبوری کے باعث رخصت دی ہے اور کئوی حد بنید بھی نہیں کی تو ہم کون ہوسکتے ہیں کہ فقہی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کی بناپر اس عظیم رخصت کو کالعدم قرار دیں۔ ہاں! اس بات سے تو انکار نہیں کہ دوسری نماز کے وقت پانی کے عدم وجود کے تحقق کے بعد ہی نماز پڑھی جائے گی یا قطعی ذرائع سے یہ معلوم ہوچکا ہو کہ پانی دستیاب نہیں ہے اور نہ اس کا حصول ممکن ہے۔ (۱) طیب کا لفظ دلیل ہے کہ جس مٹی سے تیمم مقصود ہے، وہ پاک ہونی چاہیے۔ (۲) تیمم بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کا ہم مرتبہ ہے، لہٰذا جب تک تیمم قائم ہے اور پاین نہیں ملتا، اس کے ساتھ کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے جب کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تیمم مجبوری کی طہارت ہے۔ مجبوری والی چیز ضرورت کے بعد ختمہو جاتی ہے، لہٰذا جب نماز پڑھی گئی تو مجبوری ختم ہوگئی، لہٰذا تیمم بھی ختم۔ نئی نماز کے وقت دوبارہ پانی تلاش کیا جائے گا، نہ ملے تو پھر تیمم کیا جائے گا۔ لیکن ایک نماز پڑھنے کے بعد تیمم کے ختم ہونے کی کوئی صریح صحیح دلیل موجود نہیں، صرف عقلی باتیں ہیں، جب شریعت نے مجبوری کے باعث رخصت دی ہے اور کئوی حد بنید بھی نہیں کی تو ہم کون ہوسکتے ہیں کہ فقہی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کی بناپر اس عظیم رخصت کو کالعدم قرار دیں۔ ہاں! اس بات سے تو انکار نہیں کہ دوسری نماز کے وقت پانی کے عدم وجود کے تحقق کے بعد ہی نماز پڑھی جائے گی یا قطعی ذرائع سے یہ معلوم ہوچکا ہو کہ پانی دستیاب نہیں ہے اور نہ اس کا حصول ممکن ہے۔