سنن النسائي - حدیث 3225

كِتَابُ النِّكَاحِ تَزَوُّجُ الْمَوْلَى الْعَرَبِيَّةَ صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَنَّى سَالِمًا وَأَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ ابْنَهُ فَوَرِثَ مِنْ مِيرَاثِهِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ كَانَ مَوْلًى وَأَخًا فِي الدِّينِ مُخْتَصَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3225

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل آزاد کردہ غلام کا عربی (آزاد) عورت سے شادی کرنا؟ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس رضی اللہ عنہ جو غزوئہ بدر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ حاضر ہوئے تھے‘ نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو متبنی(منہ بولا) بیٹا بنا لیا تھا اور ان کا نکاح اپنی بھتیجی ہندبت ولید بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس سے کردیا تھا‘ حالانکہ حضرت سالم ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے‘ جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت زید کو متبنی (منہ بولا) بیٹا بنالیا تھا۔ اور جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص کسی کو بیٹا بنالیتا تو لوگ اس کی اسی کا بیٹا کہتے۔ وہ اس کا وارث بھی بنتا تھا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت اتاری: {اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ…} ’’ان (متبناؤں) کو ان کے اصلی باپوں کی طرف منسوب کرو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات زیادہ قرین انصاف ہے۔ البتہ گر تم ان کے اصلی باپوں کو نہ جانتے ہو تو انہیں اپنا بھائی یا مولیٰ کہو۔‘‘ لہٰذا جس (متبنی) کا باپ معلوم نہ ہو‘ وہ (بیٹا بنانے والے کا) مولیٰ یا دینی بھا ئی ہوگا۔ ( یہ حدیث اس جگہ) مختصر (بیان ہوئی) ہے۔
تشریح : شریعت اسلامیہ میں متبنی (گودلیا ہوا‘ منہ بولا بیٹا یا لے پالک) نہ تو بٹا ہوتا ہے نہ وارث۔ وہ اپنے اصلی باپ ہی کا بیٹا ہے اور اسی کا وارث۔ اسی طرح کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرنا بھی منع اور حرام ہے۔ الا یہ کہ نسبت اجداد کی طرف ہو جس طرح غزوئہ حنین میں رسول اللہﷺ نے اپنے آپ کو ’’ابن عبدالمطلب‘‘ فرمایا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری‘ الجھاد والسیر‘ حدیث: ۲۸۶۲‘ وصحیح مسلم‘ الجھاد‘ حدیث: ۱۷۷۶) کیونکہ وہ زیادہ مشہور تھے اور آپ کے والد جوانی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ شریعت اسلامیہ میں متبنی (گودلیا ہوا‘ منہ بولا بیٹا یا لے پالک) نہ تو بٹا ہوتا ہے نہ وارث۔ وہ اپنے اصلی باپ ہی کا بیٹا ہے اور اسی کا وارث۔ اسی طرح کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرنا بھی منع اور حرام ہے۔ الا یہ کہ نسبت اجداد کی طرف ہو جس طرح غزوئہ حنین میں رسول اللہﷺ نے اپنے آپ کو ’’ابن عبدالمطلب‘‘ فرمایا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری‘ الجھاد والسیر‘ حدیث: ۲۸۶۲‘ وصحیح مسلم‘ الجھاد‘ حدیث: ۱۷۷۶) کیونکہ وہ زیادہ مشہور تھے اور آپ کے والد جوانی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔