سنن النسائي - حدیث 3224

كِتَابُ النِّكَاحِ تَزَوُّجُ الْمَوْلَى الْعَرَبِيَّةَ صحيح أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ وَهُوَ غُلَامٌ شَابٌّ فِي إِمَارَةِ مَرْوَانَ ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ قَيْسٍ الْبَتَّةَ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ تَأْمُرُهَا بِالِانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنَةِ سَعِيدٍ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَسْكَنِهَا وَسَأَلَهَا مَا حَمَلَهَا عَلَى الِانْتِقَالِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَعْتَدَّ فِي مَسْكَنِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا أَمَرَتْهَا بِذَلِكَ فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصٍ فَلَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ هِيَ بَقِيَّةُ طَلَاقِهَا وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا فَأَرْسَلَتْ زَعَمَتْ إِلَى الْحَارِثِ وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا الَّذِي أَمَرَ لَهَا بِهِ زَوْجُهَا فَقَالَا وَاللَّهِ مَا لَهَا عِنْدَنَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا وَمَا لَهَا أَنْ تَكُونَ فِي مَسْكَنِنَا إِلَّا بِإِذْنِنَا فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَصَدَّقَهُمَا قَالَتْ فَاطِمَةُ فَأَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى الَّذِي سَمَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ قَالَتْ فَاطِمَةُ فَاعْتَدَدْتُ عِنْدَهُ وَكَانَ رَجُلًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ فَكُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ حَتَّى أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا مَرْوَانُ وَقَالَ لَمْ أَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَحَدٍ قَبْلَكِ وَسَآخُذُ بِالْقَضِيَّةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا مُخْتَصَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3224

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل آزاد کردہ غلام کا عربی (آزاد) عورت سے شادی کرنا؟ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے مروان کے دور حکومت میں‘ جب کہ وہ نوجوان تھے‘ سعید بن زید کی بیٹی‘ جس کی والدہ بنت قیس تھیں‘ کوبتہ طلاق دے دی۔ اس لڑکی کی خالہ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ نے اسے پیغام بھیجا کہ وہ عبداللہ بن عمرو (خاوند) کے گھر سے منتقل ہوجائے۔ مروان نے یہ سنا تو سعید کی بیٹی کو پیغام بھیجا اور حکم دیا کہ وہ اپنے خاوند کے گھر واپس جائے۔ اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنے اصل گھر میں عدت مکمل کرنے سے پہلے کیوں منتقل ہوئی؟ تو اس نے واپسی پیغام بھیجا اور بتایا کہ میری خالہ (صحابیہ) نے مجھے حکم دیا تھا۔ (مروان نے انہیں پیغام بھیجا تو) حضرت فاطمہ بنت قیسؓ نے کہا کہ میں ابوعمرو بن حفصؓ کے نکاح میں تھی۔ جب رسول اللہﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب کو یمن کا امیر مقرر فرمایا تو میرا خاوند بھی ان کے ساتھ گیا اور وہاں سے مجھے آخری طلاق جو (تین طلاقوں میں سے) باقی تھی‘ بھیج دی اور میرا خرچ دینے کے لیے حضرت حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہؓ کو کہہ دیا۔ میں نے حارث اور عیاش کو پیغام بھیجا کہ مجھے میرا خرچ بھیجیں جس کا میرے خاوند نے حکم دیا ہے۔ وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! تیرا ہمارے ذمے کوئی خرچ نہیں مگر یہ کہ تو حاملہ ہو۔ اور تو ہماری اجازت کے بغیر ہماری رہائش میں بھی نہیں رہ سکتی۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس گئیں اور آپ سے پورا معاملہ ذکر کیا۔ آپ نے ان (کے موقف) کی تصدیق فرمائی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! تو میں کہاں رہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’توعبداللہ بن ام مکتوم نابینا کے گھر منتقل ہوجا‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تذکرہ فرمایا ہے۔‘‘ میں نے ان کے ہاں عدت گزاری۔ان کی نظر ختم ہوچکی تھی۔ میں وہاں (بلا کھٹکے) اپنے کپڑے اتار سکتی تھی۔ حتیٰ کہ رسول اللہﷺ نے میرا نکاح حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمادیا۔ مروان نے ان کی اس بات کو تسلیم نہ کیا اور کہا: میں نے یہ بات تجھ سے پہلے کسی سے نہیںسنی۔ میں تو اسی طریق پر عمل کروں گا جس پر میںنے پہلے لوگوں کو پایا ہے۔ یہ روایت (ا س جگہ) مختصر (بیان ہوئی) ہے۔
تشریح : 1) ’’بتہ طلاق‘‘ تیسری طلاق بھی بتہ ہے کیونکہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا کیونکہ بتہ کے معنی منقطع کردینے والی کے ہیں۔ (2) ’’تصدیق فرمائی‘‘ کیونکہ جب خاوند رجوع نہیں کرسکتا تو وہ عدت کے دوران میں اخراجات اور رہائش کا ذمہ دار کیوں ہو؟ یہ حدیث اس مسئلے میں بالکل واضح اور صریح ہے کہ مطلقئہ ثلاثہ غیر حاملہ کے لیے نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت علی‘ ابن عباس‘ جابر رضی اللہ عنہ اور عطا‘ طاوس‘ حسن‘ عکرمہ‘ اسحاق‘ ابوثور وغیرہ فقہاء محدثینj کا بھی یہی موقف ہے اور یہی صحیح ہے۔ مسند احمد میںہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’مرد پر عورت کا نان ونفقہ اور رہائش اس صورت میں ہے جب طلاق رجعی نہ ہو تو پھر مردے کے ذمے نہ اس کا نان ونفقہ ہے اور نہ رہائش۔‘‘ (مسند احمد: ۶/ ۴۱۶‘۴۱۷) اور طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ ’’جب عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کیے بغیر پہلے کے لیے حلال نہ ہوسکتی ہو تو اس عورت کے لیے (پہلے خاوند کے ذمے) نان ونفقہ ہے نہ رہائش۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۴/ ۳۸۲، ۳۸۳) احناف کا موقف ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں ملیں گے۔ حضرت عمر‘ ابن مسعودؓ‘ ابن ابی لیلیٰ اور سفیان ثوری کا بھی یہی موقف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہؓ کی بات تسلیم نہ کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ مجتہد سے اجتہاد میں غلھی ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں‘ نیز نبی اکرمﷺ کے صریح فرامین ان کے اجتہاد پر مقدم ہیں۔ احناف نے اس حدیث کو رد کرنے کے لیے بہت زیادہ تاویلات کی ہیں جو قابل التفات نہیں‘ مثلاً: یہ کسی راوی کی غلطی ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ خاوند کے رشتہ داروں سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھی‘ روز روز کی توتکار سے انہیں خاوند کے گھر سے منتقل کیا گیا۔ وہ گھر ویران جگہ تھا اور خطرہ تھا کہ کوئی اوباش دیوار نہ پھلانگ آئے۔ جو نفقہ خاوند نے ان کے لیے متعین کیا تھا‘ وہ اس سے زائد مانگتی تھیں‘ اور انکار زائد سے تھا نہ کہ اصل نفقہ سے رسول اللہﷺ کی تصدیق بھی زائد کی نفی سے تعلق رکھتی ہے‘ وغیرہ۔ امام مالک شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اسے رہائش ملے گی نفقہ نہیں ملے گا۔ لیکن دلائل کی رو سے صحیح موقف پہلا ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ (3) عبداللہ بن ام مکتومؓ ان محترمہ کے محرم رشتہ دار ہوں گے۔ یا پھر نابینا اور بوڑھے ہونے کی وجہ سے آپ نے فاطمہ بنت قیس کو ان کے ہاں رہنے کی اجازت دی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے مردوں کا دیکھنا جائز ہے‘ تاہم جہاں فتنے کا امکان ہو‘ وہاں اس کا جواز نہیں ہوگا۔ (4) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ موالی سے تھے کیونکہ ان کے والد آزاد کردہ غلام تھے۔ ویسے بنیادی طور پر حضرت زیدؓ آزاد تھے اور خالص عربی تھے‘ مگر دشمنوں نے قید کر کے بیچ دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہی الفاظ ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کا نکاح‘ جو ایک مرتبہ آزاد خاتون تھیں‘ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کردیا‘ اگر چہ وہ مولیٰ تھے۔ 1) ’’بتہ طلاق‘‘ تیسری طلاق بھی بتہ ہے کیونکہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا کیونکہ بتہ کے معنی منقطع کردینے والی کے ہیں۔ (2) ’’تصدیق فرمائی‘‘ کیونکہ جب خاوند رجوع نہیں کرسکتا تو وہ عدت کے دوران میں اخراجات اور رہائش کا ذمہ دار کیوں ہو؟ یہ حدیث اس مسئلے میں بالکل واضح اور صریح ہے کہ مطلقئہ ثلاثہ غیر حاملہ کے لیے نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت علی‘ ابن عباس‘ جابر رضی اللہ عنہ اور عطا‘ طاوس‘ حسن‘ عکرمہ‘ اسحاق‘ ابوثور وغیرہ فقہاء محدثینj کا بھی یہی موقف ہے اور یہی صحیح ہے۔ مسند احمد میںہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’مرد پر عورت کا نان ونفقہ اور رہائش اس صورت میں ہے جب طلاق رجعی نہ ہو تو پھر مردے کے ذمے نہ اس کا نان ونفقہ ہے اور نہ رہائش۔‘‘ (مسند احمد: ۶/ ۴۱۶‘۴۱۷) اور طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ ’’جب عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کیے بغیر پہلے کے لیے حلال نہ ہوسکتی ہو تو اس عورت کے لیے (پہلے خاوند کے ذمے) نان ونفقہ ہے نہ رہائش۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۴/ ۳۸۲، ۳۸۳) احناف کا موقف ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں ملیں گے۔ حضرت عمر‘ ابن مسعودؓ‘ ابن ابی لیلیٰ اور سفیان ثوری کا بھی یہی موقف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہؓ کی بات تسلیم نہ کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ مجتہد سے اجتہاد میں غلھی ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں‘ نیز نبی اکرمﷺ کے صریح فرامین ان کے اجتہاد پر مقدم ہیں۔ احناف نے اس حدیث کو رد کرنے کے لیے بہت زیادہ تاویلات کی ہیں جو قابل التفات نہیں‘ مثلاً: یہ کسی راوی کی غلطی ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ خاوند کے رشتہ داروں سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھی‘ روز روز کی توتکار سے انہیں خاوند کے گھر سے منتقل کیا گیا۔ وہ گھر ویران جگہ تھا اور خطرہ تھا کہ کوئی اوباش دیوار نہ پھلانگ آئے۔ جو نفقہ خاوند نے ان کے لیے متعین کیا تھا‘ وہ اس سے زائد مانگتی تھیں‘ اور انکار زائد سے تھا نہ کہ اصل نفقہ سے رسول اللہﷺ کی تصدیق بھی زائد کی نفی سے تعلق رکھتی ہے‘ وغیرہ۔ امام مالک شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اسے رہائش ملے گی نفقہ نہیں ملے گا۔ لیکن دلائل کی رو سے صحیح موقف پہلا ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ (3) عبداللہ بن ام مکتومؓ ان محترمہ کے محرم رشتہ دار ہوں گے۔ یا پھر نابینا اور بوڑھے ہونے کی وجہ سے آپ نے فاطمہ بنت قیس کو ان کے ہاں رہنے کی اجازت دی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے مردوں کا دیکھنا جائز ہے‘ تاہم جہاں فتنے کا امکان ہو‘ وہاں اس کا جواز نہیں ہوگا۔ (4) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ موالی سے تھے کیونکہ ان کے والد آزاد کردہ غلام تھے۔ ویسے بنیادی طور پر حضرت زیدؓ آزاد تھے اور خالص عربی تھے‘ مگر دشمنوں نے قید کر کے بیچ دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہی الفاظ ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کا نکاح‘ جو ایک مرتبہ آزاد خاتون تھیں‘ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کردیا‘ اگر چہ وہ مولیٰ تھے۔