سنن النسائي - حدیث 3223

كِتَابُ النِّكَاحِ تَزَوُّجُ الْمَرْأَةِ مِثْلَهَا فِي السِّنِّ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَطَبَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَاطِمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا مِنْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3223

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل عورت کی شادی اس کے ہم عمر مرد سے مناسب ہے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’وہ (تمہارے مقابلے میں) چھوٹی ہے۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا تو آپ نے ان سے فاطمہ کا نکاح کردیا۔
تشریح : 1) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کا پیغام رسول اللہﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کرنے کے لیے تھا۔ (2) ’’چھوٹی ہے‘‘ ویسے تو وہ بالغ تھیں‘ چھوٹی نہیں تھیں مگر حضرت ابوبکر او ر عمر رضی اللہ عنہ کی عمر کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھیں۔ اس وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر بیس اکیس سال تھی۔ جبکہ ابوبکر پچاس سال سے اوپر ہوچکے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ چالیس سال سے تجاوز فرماچکے تھے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً پچیس سال تھی۔ اور یہ عمر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے تقریباً برابر ہی تھی۔ نکاح میں مرد اور عورت کی عمر میں اتنا فرق کوئی زیادہ نہیں ہے۔ (3) سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا پچاس سال کی عمر میں حضرت عائشہؓ سے نکاح کرنا کیسے مناسب تھا جبکہ وہ بہت چھوٹی تھیں بلکہ نابالغ تھیں۔ تین سال بعد رخصتی کے وقت بالغ ہوئیں؟ جواب یہ ہے کہ کسی عظیم مقصد کی خاطر عمر کا یہ تفاوت قابل برداشت ہے۔ نبیﷺ دراصل خانوادئہ صدیق رضی اللہ عنہ سے خصوصی تعلق جوڑنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے آپ کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب ہونا تھا۔ اس تعلق کی بنا پر انہیں خصوصی تقدس حاصل ہوگیا۔ یہ صرف اتفاق نہیں کہ پہلے دو خلیفے آپ کے سسر اور بعد والے دو خلیفے آپ کے داماد تھے۔ اور بنو امیہ جنہوں نے تقریباً سو سال تک حکومت کی‘ رسول اللہﷺ کے سسرال تھے۔ اور بنوعباس تو خیر آپ کے نسبی رشتے دار تھے۔ مذکورہ خلفاء کی آپ سے مذکورہ نسبتوں نے ان کی حکومت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کا پیغام رسول اللہﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کرنے کے لیے تھا۔ (2) ’’چھوٹی ہے‘‘ ویسے تو وہ بالغ تھیں‘ چھوٹی نہیں تھیں مگر حضرت ابوبکر او ر عمر رضی اللہ عنہ کی عمر کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھیں۔ اس وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر بیس اکیس سال تھی۔ جبکہ ابوبکر پچاس سال سے اوپر ہوچکے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ چالیس سال سے تجاوز فرماچکے تھے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً پچیس سال تھی۔ اور یہ عمر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے تقریباً برابر ہی تھی۔ نکاح میں مرد اور عورت کی عمر میں اتنا فرق کوئی زیادہ نہیں ہے۔ (3) سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا پچاس سال کی عمر میں حضرت عائشہؓ سے نکاح کرنا کیسے مناسب تھا جبکہ وہ بہت چھوٹی تھیں بلکہ نابالغ تھیں۔ تین سال بعد رخصتی کے وقت بالغ ہوئیں؟ جواب یہ ہے کہ کسی عظیم مقصد کی خاطر عمر کا یہ تفاوت قابل برداشت ہے۔ نبیﷺ دراصل خانوادئہ صدیق رضی اللہ عنہ سے خصوصی تعلق جوڑنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے آپ کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب ہونا تھا۔ اس تعلق کی بنا پر انہیں خصوصی تقدس حاصل ہوگیا۔ یہ صرف اتفاق نہیں کہ پہلے دو خلیفے آپ کے سسر اور بعد والے دو خلیفے آپ کے داماد تھے۔ اور بنو امیہ جنہوں نے تقریباً سو سال تک حکومت کی‘ رسول اللہﷺ کے سسرال تھے۔ اور بنوعباس تو خیر آپ کے نسبی رشتے دار تھے۔ مذکورہ خلفاء کی آپ سے مذکورہ نسبتوں نے ان کی حکومت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔