سنن النسائي - حدیث 321

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب تَيَمُّمِ الْجُنُبِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى فَقَالَ أَبُو مُوسَى أَوْ لَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ الْمَاءَ فَتَمَرَّغْتُ بِالصَّعِيدِ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ هَكَذَا وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ ضَرْبَةً فَمَسَحَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَضَهُمَا ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ وَبِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ عَلَى كَفَّيْهِ وَوَجْهِهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَوَ لَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 321

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ جنبی کا تیمم حضرت شقیق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام پر بھیجا۔ میں جنبی ہوگیا اور میں پانی نہ پا سکا تو میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا اور پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے اس بات کا ذکر آپ سے کیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے اتنا کافی تھا کہ تو ایسے کر لیتا۔‘‘ پھر آپ نے اپنے ہاتھ زمین پر ایک دفعہ مارے، پھر دونوں ہتھیلیوں کو ملا۔‘‘ پھر انھیں جھاڑا۔ پھر بائیں ہاتھ کو دائیں اور دائیں کو بائیں پر ملا۔ اس طرح اپنی ہتھیلیوں اور چہرے پر انھیں پھیرا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا: کیا تجھے علم نہیں کہ حضرت عمر نے حضرت عمار کی بات پر قناعت نہ کی۔
تشریح : (۱) حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے جب کہ حضرت عمار اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تیمم کو غسل کی جگہ بھی کافی سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں مندرجہ بالا مکالمہ ہوا۔ (۲) اگرچہ اس روایت میں ذکر نہیں، ملر اس سے قبل تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ جنابت والا واقعہ حضرت عمر اور عمار رضی اللہ عنہما دونوں کو پیش آیا تھا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ یاد نہ آسکا، اس لیے انھیں اطمینان نہ ہوا اور وہ اپنے موقف پر قائم رہے مگر جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی جلالت کے پیش نظر اس واقعے کی روایت سے دست بردار ہونے کی پیش کش کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا: ’’تم اپنی ذمے داری پر بیان کرو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ اختلاف ختم ہوگیا۔ اب امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے کہ جنبی کو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم ہی کافی ہے۔ (۳) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت متعدد دفعہ بیان کی ہے جس میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔ کہیں اختصار بھی ہے۔ تمام روایتیوں کو ملانے سے واقعے کی جو صورت بنتی ہے اور جس کی تفصیل اس روایت میں بھی ہے، وہی اصل ہے۔ ہر کثرت طرق والی روایت سے استدلال کا یہی درست طریقہ ہے۔ (۱) حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے جب کہ حضرت عمار اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تیمم کو غسل کی جگہ بھی کافی سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں مندرجہ بالا مکالمہ ہوا۔ (۲) اگرچہ اس روایت میں ذکر نہیں، ملر اس سے قبل تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ جنابت والا واقعہ حضرت عمر اور عمار رضی اللہ عنہما دونوں کو پیش آیا تھا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ یاد نہ آسکا، اس لیے انھیں اطمینان نہ ہوا اور وہ اپنے موقف پر قائم رہے مگر جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی جلالت کے پیش نظر اس واقعے کی روایت سے دست بردار ہونے کی پیش کش کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا: ’’تم اپنی ذمے داری پر بیان کرو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ اختلاف ختم ہوگیا۔ اب امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے کہ جنبی کو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم ہی کافی ہے۔ (۳) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت متعدد دفعہ بیان کی ہے جس میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔ کہیں اختصار بھی ہے۔ تمام روایتیوں کو ملانے سے واقعے کی جو صورت بنتی ہے اور جس کی تفصیل اس روایت میں بھی ہے، وہی اصل ہے۔ ہر کثرت طرق والی روایت سے استدلال کا یہی درست طریقہ ہے۔