سنن النسائي - حدیث 3203

كِتَابُ النِّكَاحِ مَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحَرَّمَهُ عَلَى خَلْقِهِ لِيَزِيدَهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قُرْبَةً إِلَيْهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهَا حِينَ أَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُخَيِّرَ أَزْوَاجَهُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَبَدَأَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ فَقُلْتُ فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3203

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل ان چیزوں کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر فرض فرمائیں اور دوسرے لوگوں پر حرام‘ تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید اپنا قرب نصیب فرمائے‘ ان شاء اللہ نبیﷺ کی زوجئہ محترمہ حضرت عائشہؓ نے خبردی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو (طلاق لینے کا) اختیار دیں تو رسول اللہﷺ (سب سے پہلے) میرے پاس آئے اور فرمایا: ’’عائشہ میں تجھ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں۔ تو اس (کا جواب دینے) کے بارے میں جلدی نہ کرنا حتیٰ کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلے۔‘‘ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میرے والدین کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے‘ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: (یہ آیت پڑھی) {یَآیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ …} ’’اے نبیﷺ! اپنی بیو یوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی نیت کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے کر فارغ کرودوں… الخ۔‘‘ میں نے کہا: میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ طلب کروں؟ بلاشک وشبہ میں اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسول اور آخرت کی طلب گار ہوں۔
تشریح : (1)جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہراتf بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں‘ جس کا اظہار انہوںنے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتادیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے‘ اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں‘ جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنْ وأرضاھن) (2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا‘ پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے‘ لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بپی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {نِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء} (2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔ (1)جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہونے لگیں اور اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی بھی کثرت ہوئی تو مسلمانوں کی مالی حالت بھی پہلے سے قدرے بہتر ہوگئی۔ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہراتf بھی انسان ہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی پہلے کی نسبت کچھ زیادہ سہولتیں حاصل ہوں‘ جس کا اظہار انہوںنے رسول اللہﷺ سے کیا۔ اس سے آپ پریشان ہوگئے تو اللہ تعا لیٰ نے اس کا حل تجویز فرمایا کہ آپ اپنی عورتوں کو صاف بتادیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا کام کررہا ہوں۔ دنیا کی زیب وزینت سے بہت دورہوں۔ اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں میری طرح جھوٹا موٹا کھا کر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اگر تم اس طرح درویشانہ طریقے سے زندگی گزارسکو تو بہتر ہے‘ اور اگر تم میری طرح نہیں رہ سکتیں اور تمہیں زیادہ مال چاہیے تو میں برضا ورغبت بغیر کسی ناراضی کے تمہیں اپنی زوجیت سے فارغ کردیتا ہوں‘ جہاں چاہے نکاح کرلو۔ مگر آفرین ہے آپ کی ازواج مطہرات پر کہ کسی نے بھی دنیا کا نام نہ لیا اور پھر کبھی مرتے دم تک درویشی نہ چھوڑی۔ رسول اللہﷺ کی زوجیت (دنیا وجنت میں) اور اللہ تعالیٰ کے اجروعظیم پرشاداں وفرحاں رہیں۔ کبھی فقر وفاقہ کی شکایت نہ کی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنْ وأرضاھن) (2) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ آپ کا خاصہ شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارے لیے فرض ہے کہ بیویوں کو ان کا کھانا‘ پینا اور لباس ہر صورت مہیا کریں۔ اور یہ ان کا حق ہے‘ لہٰذا ہم اپنی بیویوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں میرے ساتھ بھوکا رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے لو۔ لیکن رسول اللہﷺ کے لیے ایسا اعلان واجب تھا کیونکہ آپ کی شان بہت بلند ہے۔ نبی کے گھر میں نبوی مزاج والی عورتیں ہی مناسب ہیں تاکہ نبی کو پریشانی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کا درجہ بپی بلند رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {نِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء} (2) خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت کرنی چاہیے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ا س کا اجر عظیم ہے۔