سنن النسائي - حدیث 3201

كِتَابُ النِّكَاحِ ذِكْرُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النِّكَاحِ وَأَزْوَاجِهِ، وَمَا أَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَظَّرَهُ عَلَى خَلْقِهِ، زِيَادَةً فِي كَرَامَتِهِ، وَتَنْبِيهًا لِفَضِيلَتِهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرَّمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَغَارُ عَلَى اللَّاتِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقُولُ أَوَتَهَبَ الْحُرَّةُ نَفْسَهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ لَكَ فِي هَوَاكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3201

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل نکاح اور بیویوں کے بارے میں رسول اللہ کی خصوصی حیثیت وشان اور اس چیز کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے حلال کی ہے اور دوسرے لوگو ں پر ممنوع قراردی ہے تاکہ آپ عظیم الشان مرتبہ اور فضیلت ظاہر ہو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غصہ آتا تھا جو اپنے آپ کو نبیﷺ (سے نکاح) کے لیے خود پیش کرتی تھیں۔ میں کہتی تھی: کوئی آزاد رورت بھی (مرد سے شادی کرنے کے لیے) اپنے آپ کو خود پیش کرسکتی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: {تُرْجِیْ مَنْ تَشَآئُ…} ’’آپ اپنی جس بیوی کو چاہیں دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے قریب کر لیں۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب تعالیٰ بھی آپ کی خواہش اور پسند کو پورا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔
تشریح : (1) ’’پیش کرتی تھیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مباح رکھا تھا کہ اگر کوئی مومن مہاجر عورت اپنے آپ کو رسول اللہﷺ پر نکاح کے لیے پیش کرے تو آپ اولیاء کے بغیر اسے نکاح فرماسکتے ہیں۔ کیونکہ اولاً تو مہاجر عورتوں کے لیے اولیاء کافر ہوتے تھے جن کی ولایت ساقط ہوتی تھی‘ دوسرے نسبی اولیاء نہ ہونے کی صورت میں آپ حاکم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ان کے قانونی ولی ہوتے تھے‘ لہٰذا عورت کی پیشکش کی صورت میں آپ کا اس سے نکاح کرلینا تمام شرائط پر پورا اترنا تھا مگر آپ نے کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا جس نے خود پیش کش کی ہو تاکہ کوئی نابکار الزام تراشی نہ کرسکے۔ اگرچہ یہ آپ کے لیے شرعاً‘ قانوناً اور اخلاقاً ہر لحاظ سے جائز تھا۔ (2) ’’پیش کرسکتی ہے۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے یہ بات اپنے حالات کے لحاظ سے فرمائی ورنہ ایک مہاجر‘ بے آسرا نوجوان عورت جو اپنے خاندان سے منقطع ہوچکی ہے‘ اگر اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی اکرمﷺ پر پیش کرے کہ اگر آپ کی ضرورت ہو تو آپ نکاح فرمالیں ورنہ کسی اور سے کردیں‘ اس میں ذرہ بھر بھی قباحت نہیں کیونکہ آپ حاکم اعلیٰ تھے اور ایسی بے آسرا نوجوان عورتوں کو سہارا مہیا کرنا آپ کا فرض بنتا تھا۔ (3) ’’یہ آیت اتاری۔‘‘ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے لیے اپنی بیویوں کے لیے باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر قربان جانیے آپ کے اخلاق عالیہ پر کہ آپ نے باوجود اتنی وسعت کے نہ صرف باری مقرر کی بلکہ ان سب سے ہر لحاظ سے مساویانہ سلوک فرمایا۔ فِدَاہُ نَفْسِیی وَرُوحِیی وَأَبِیی وَأُمِّییﷺ۔ دیکھیے: (سنن أبی داود، النکاح‘ حدیث: ۲۱۳۵‘ وارواء الغلیل: ۷/۷۵) (1) ’’پیش کرتی تھیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مباح رکھا تھا کہ اگر کوئی مومن مہاجر عورت اپنے آپ کو رسول اللہﷺ پر نکاح کے لیے پیش کرے تو آپ اولیاء کے بغیر اسے نکاح فرماسکتے ہیں۔ کیونکہ اولاً تو مہاجر عورتوں کے لیے اولیاء کافر ہوتے تھے جن کی ولایت ساقط ہوتی تھی‘ دوسرے نسبی اولیاء نہ ہونے کی صورت میں آپ حاکم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ان کے قانونی ولی ہوتے تھے‘ لہٰذا عورت کی پیشکش کی صورت میں آپ کا اس سے نکاح کرلینا تمام شرائط پر پورا اترنا تھا مگر آپ نے کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا جس نے خود پیش کش کی ہو تاکہ کوئی نابکار الزام تراشی نہ کرسکے۔ اگرچہ یہ آپ کے لیے شرعاً‘ قانوناً اور اخلاقاً ہر لحاظ سے جائز تھا۔ (2) ’’پیش کرسکتی ہے۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے یہ بات اپنے حالات کے لحاظ سے فرمائی ورنہ ایک مہاجر‘ بے آسرا نوجوان عورت جو اپنے خاندان سے منقطع ہوچکی ہے‘ اگر اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی اکرمﷺ پر پیش کرے کہ اگر آپ کی ضرورت ہو تو آپ نکاح فرمالیں ورنہ کسی اور سے کردیں‘ اس میں ذرہ بھر بھی قباحت نہیں کیونکہ آپ حاکم اعلیٰ تھے اور ایسی بے آسرا نوجوان عورتوں کو سہارا مہیا کرنا آپ کا فرض بنتا تھا۔ (3) ’’یہ آیت اتاری۔‘‘ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے لیے اپنی بیویوں کے لیے باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر قربان جانیے آپ کے اخلاق عالیہ پر کہ آپ نے باوجود اتنی وسعت کے نہ صرف باری مقرر کی بلکہ ان سب سے ہر لحاظ سے مساویانہ سلوک فرمایا۔ فِدَاہُ نَفْسِیی وَرُوحِیی وَأَبِیی وَأُمِّییﷺ۔ دیکھیے: (سنن أبی داود، النکاح‘ حدیث: ۲۱۳۵‘ وارواء الغلیل: ۷/۷۵)