سنن النسائي - حدیث 3198

كِتَابُ النِّكَاحِ ذِكْرُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النِّكَاحِ وَأَزْوَاجِهِ، وَمَا أَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَظَّرَهُ عَلَى خَلْقِهِ، زِيَادَةً فِي كَرَامَتِهِ، وَتَنْبِيهًا لِفَضِيلَتِهِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَرِفَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَذِهِ مَيْمُونَةُ إِذَا رَفَعْتُمْ جَنَازَتَهَا فَلَا تُزَعْزِعُوهَا وَلَا تُزَلْزِلُوهَا فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مَعَهُ تِسْعُ نِسْوَةٍ فَكَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ وَوَاحِدَةٌ لَمْ يَكُنْ يَقْسِمُ لَهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3198

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل نکاح اور بیویوں کے بارے میں رسول اللہ کی خصوصی حیثیت وشان اور اس چیز کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے حلال کی ہے اور دوسرے لوگو ں پر ممنوع قراردی ہے تاکہ آپ عظیم الشان مرتبہ اور فضیلت ظاہر ہو حضرت عطاء سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں سرف کے مقام پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: یہ حضرت میمونہ ہیں۔ جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اسے (بے ہنگم) حرکت نہ دینا اور نہ اسے زیادہ اوپر نیچے کرنا۔ رسول اللہﷺ کے نکاح میں (وفات کے وقت) نو بیویاں تھیں۔ آپ آٹھ کے لیے باری مقرر فرماتے تھے اور ایک کے لیے باری مقرر نہ فرماتے تھے۔
تشریح : (1) اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت ہے کہ حضرت میمونہؓ کا نکاح‘ رخصتی اور وفات تینوں مقام سرف میںہوئے اور اسی خیمے میں دفن ہوئیں جس میں ان کی رخصتی ہوئی تھی۔ حضرت میمونہؓ حضرت ابن عباسؓ کی خالہ محترمہ تھیں۔ (2) ’’حرکت نہ دینا‘‘ عام میت کا احترام بھی واجب ہے مگر زوجئہ رسول کا احترام سب سے بڑھ کر ہے۔ زندہ شخص محترم ہو تو فوت ہونے سے اس کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے‘ حتیٰ کہ فوت شدہ کی قبر پر بیٹھنا بھی منع ہے‘ حالانکہ میت بہت نیچے ہوتی ہے۔ (3) ’’نوبیویاں‘‘ ان کے علاوہ دو بیویاں آپ کی زندگی میں فوت ہوگئی تھیں۔ لونڈیاں مزید ان کے علاوہ ہیں۔ نوبویاں آپ کا خاصہ ہے۔ عام شخص چار سے زائد بیویاں بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ (4) ’’باری‘‘ آپ کی ایک بیوی حضرت سودہؓ بوڑھی ہوگئی تھیں‘ اس لیے انہوں نے ازخود اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دی تھی‘ لہٰذا نبیﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس دودن رہتے تھے اور دوسری اوزواج کے پاس ایک ایک دن۔ (5) چار سے زیادہ بیویوں کی رخصت (آپ کے لیے) اعلیٰ مقاصد کے لیے تھی: (۱) آئندہ خلفاء سے رشتہ داری‘ مثلاً: حضرت عائشہ اور حفصہؓ سے نکاح (ب) بے سہارار بیواؤں کی حوصلہ افزائی جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا تھا۔ خاوند فوت ہونے کے بعد وہ ا پنے گھروں کی طرف بھی رجوع نہیں کرسکتی تھیں‘ مثلاً: ام حبیبہ اور ام سلمہؓ تھیں۔ (ج) گھریو مسائل بھی تفصیل سے امت تک پہنچ سکیں۔ ایک دو بیویاں یہ کام خوش اسلوبی سے نہیں کرسکتی تھیں۔ (د) دشمن گروہوں کو رام کرنے کے لیے‘ مثلاً: حضرت ام حبیبہؓ جو کہ مشرکین کے سالار ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ اس نکاح کے بعد ابوسفیان کا جوش وخروش ختم ہوگیا بالآخر مسلمان ہوگئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔اسی طرح حضرت صفیہؓ جو کہ یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اس نکاح سے یہودیوں کاکانٹا نکل گیا۔ (6)یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رسول اللہﷺ کو بیویوں کی مقررہ تعداد ۴ سے بالا قرار دینے کی بنیاد شہوت نہیں ہوسکتی کیونکہ جو شخصیت اپنی زندگی کے تجردوالے ۲۵ سال بے عیب گزارتے ہیں او راگلے ۲۵ سال صرف ایک بیوی‘ وہ بھی بیوہ کے ساتھ انتہائی عفت وشرافت کے ساتھ گزارتے ہیں اور مزید پانچ سال ایک دوسری بیوی (حضرت سودہؓ) کے ساتھ ہی گزارتے ہیں‘ کیا یہ کسی لحاظ سے بھی مانا جاسکتا ہے کہ جب ان کی عمر ۵۵ سال ہوجاتی ہے‘ جوانی مکمل طور پر رخصت ہوجاتی ہے اور بڑھاپا شروع ہوجاتا ہے تو اپنی زندگی کے آخری ساٹھ سال میں شہوت کی بنا پر زائد شادیا کرتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ حقیقتاً رسول اللہﷺ کی زیادہ بیویوں کا عرصہ آخری پانچ سال ہیں۔ کیا کوئی معقول آدمی اسے شہوت پر محمول کرسکتا ہے؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً جبکہ وہ شحصیت اپنی راتوں کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت می ںروتے ہوئے گزاردیتی ہو۔ لازماً آپ کے کثرت ازواج کی حکمت کچھ اور تھی جس کی کچھ تفصیل اوپر ذکر ہوچکی ہے۔ فِدَاہ نفسی وروحی وأمیﷺ۔ (1) اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت ہے کہ حضرت میمونہؓ کا نکاح‘ رخصتی اور وفات تینوں مقام سرف میںہوئے اور اسی خیمے میں دفن ہوئیں جس میں ان کی رخصتی ہوئی تھی۔ حضرت میمونہؓ حضرت ابن عباسؓ کی خالہ محترمہ تھیں۔ (2) ’’حرکت نہ دینا‘‘ عام میت کا احترام بھی واجب ہے مگر زوجئہ رسول کا احترام سب سے بڑھ کر ہے۔ زندہ شخص محترم ہو تو فوت ہونے سے اس کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے‘ حتیٰ کہ فوت شدہ کی قبر پر بیٹھنا بھی منع ہے‘ حالانکہ میت بہت نیچے ہوتی ہے۔ (3) ’’نوبیویاں‘‘ ان کے علاوہ دو بیویاں آپ کی زندگی میں فوت ہوگئی تھیں۔ لونڈیاں مزید ان کے علاوہ ہیں۔ نوبویاں آپ کا خاصہ ہے۔ عام شخص چار سے زائد بیویاں بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ (4) ’’باری‘‘ آپ کی ایک بیوی حضرت سودہؓ بوڑھی ہوگئی تھیں‘ اس لیے انہوں نے ازخود اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دی تھی‘ لہٰذا نبیﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس دودن رہتے تھے اور دوسری اوزواج کے پاس ایک ایک دن۔ (5) چار سے زیادہ بیویوں کی رخصت (آپ کے لیے) اعلیٰ مقاصد کے لیے تھی: (۱) آئندہ خلفاء سے رشتہ داری‘ مثلاً: حضرت عائشہ اور حفصہؓ سے نکاح (ب) بے سہارار بیواؤں کی حوصلہ افزائی جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا تھا۔ خاوند فوت ہونے کے بعد وہ ا پنے گھروں کی طرف بھی رجوع نہیں کرسکتی تھیں‘ مثلاً: ام حبیبہ اور ام سلمہؓ تھیں۔ (ج) گھریو مسائل بھی تفصیل سے امت تک پہنچ سکیں۔ ایک دو بیویاں یہ کام خوش اسلوبی سے نہیں کرسکتی تھیں۔ (د) دشمن گروہوں کو رام کرنے کے لیے‘ مثلاً: حضرت ام حبیبہؓ جو کہ مشرکین کے سالار ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ اس نکاح کے بعد ابوسفیان کا جوش وخروش ختم ہوگیا بالآخر مسلمان ہوگئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔اسی طرح حضرت صفیہؓ جو کہ یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اس نکاح سے یہودیوں کاکانٹا نکل گیا۔ (6)یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رسول اللہﷺ کو بیویوں کی مقررہ تعداد ۴ سے بالا قرار دینے کی بنیاد شہوت نہیں ہوسکتی کیونکہ جو شخصیت اپنی زندگی کے تجردوالے ۲۵ سال بے عیب گزارتے ہیں او راگلے ۲۵ سال صرف ایک بیوی‘ وہ بھی بیوہ کے ساتھ انتہائی عفت وشرافت کے ساتھ گزارتے ہیں اور مزید پانچ سال ایک دوسری بیوی (حضرت سودہؓ) کے ساتھ ہی گزارتے ہیں‘ کیا یہ کسی لحاظ سے بھی مانا جاسکتا ہے کہ جب ان کی عمر ۵۵ سال ہوجاتی ہے‘ جوانی مکمل طور پر رخصت ہوجاتی ہے اور بڑھاپا شروع ہوجاتا ہے تو اپنی زندگی کے آخری ساٹھ سال میں شہوت کی بنا پر زائد شادیا کرتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ حقیقتاً رسول اللہﷺ کی زیادہ بیویوں کا عرصہ آخری پانچ سال ہیں۔ کیا کوئی معقول آدمی اسے شہوت پر محمول کرسکتا ہے؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً جبکہ وہ شحصیت اپنی راتوں کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت می ںروتے ہوئے گزاردیتی ہو۔ لازماً آپ کے کثرت ازواج کی حکمت کچھ اور تھی جس کی کچھ تفصیل اوپر ذکر ہوچکی ہے۔ فِدَاہ نفسی وروحی وأمیﷺ۔