سنن النسائي - حدیث 3169

كِتَابُ الْجِهَادِ فَضْلُ الرِّبَاطِ صحيح قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ عَنْ سَلْمَانَ الْخَيْرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ رَابَطَ يَوْمًا وَلَيْلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَانَ لَهُ كَأَجْرِ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ وَمَنْ مَاتَ مُرَابِطًا أُجْرِيَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ مِنْ الْأَجْرِ وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ الرِّزْقُ وَأَمِنَ مِنْ الْفَتَّانِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3169

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل سرحدوں پر تیار بیٹھنے (پہرادینے) کی فضیلت حضرت سلمان خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جنگ کے لیے تیار ہوکر ایک دن رات کے لیے سرحد پر بیٹھا رہے‘ اسے ایک ماہ کے روزوں اور نماز کا ثواب ملے گا۔ اور جو سرحد پر بیٹھا بیٹھا فوت ہوجائے‘ اس کے لیے مذکورہ ثواب جاری رکھا جائے گا اور اس کا رزق بھی جاری رکھا جائے گا اور وہ امتحان لینے والوں سے محفوظ رہے گا۔‘‘
تشریح : (1) مقصد یہ کہ صرف لڑائی ہی جہاد نہیں بلکہ لڑائی کی تربیت حاصل کرنا‘ لڑائی کی تیاری کرنا اور دشمن سے مقابلے کے لیے تیار رہنا بھی جہا دہے۔ فوج سرحدوں پر بیٹھی ہرے اور اس کے ڈر سے دشمن وبکارہے تو یہ بھی جہاد ہے۔ اس پر اجر عظیم حاصل ہوگا۔ لڑائی تو آخری چارئہ کار ہے جو بہ امرمجبوری اختیار کیا جائے گا‘ اسی لیے رسول اللہﷺ نے لڑائی کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں جب مجبوراً لڑنا پڑے تو ڈٹ کر لڑیں۔ (2) ’’ثواب جاری رکھا جائے گا‘‘ جنگی تیاری صدقہ جاریہ کی طرح ہے کیونکہ اس کی برکت سے دشمن کا حوصلہ پست رہتا ہے اور اسلام کی اشاعت میں ترقی ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا فائدہ جاری ہے‘ لہٰذا اس کا ثواب بھی جاری رہے گا۔ باقی رہا رزق‘ تو مرنے کے بعد وہ کس طرح جاری رہتا ہے؟ اس کی کیفیت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ (3) ’’امتحان لینے والوں‘‘ یعنی قبر میں سوال وجواب والے فرشتے اس کا امتحان نہیں لیں گے اس کا اس نیکی کی حالت میں فوت ہونا ہی اس کے مخلص مسلمان ہونے کی قاطع دلیل ہے‘ لہٰذا سوال وجواب کی ضرورت ہی نہیں۔ بعض نے اس سے مراد شیاطین لیے ہیں‘ یعنی شیاطین اسے مرتے وقت گمراہ نہیں کرسکیں گے۔ بعض نے اس سے عذاب والے فرشتے مراد لیے ہیں‘ یعنی اسے عذاب کا خطرہ نہیں رہے گا۔ دراصل عربی عبارت میں لفظ ’’فتان‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے یہ تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ واللّـٰہ أعلم۔ (4) ’’سلمان خیر‘‘ نام تو سلمان تھا جو کہ سلمان فارسی کے نام سے معروف ہیں۔ ان کی نیک نفسی کی وجہ سے انہیں سلمان خیر کہا گیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (1) مقصد یہ کہ صرف لڑائی ہی جہاد نہیں بلکہ لڑائی کی تربیت حاصل کرنا‘ لڑائی کی تیاری کرنا اور دشمن سے مقابلے کے لیے تیار رہنا بھی جہا دہے۔ فوج سرحدوں پر بیٹھی ہرے اور اس کے ڈر سے دشمن وبکارہے تو یہ بھی جہاد ہے۔ اس پر اجر عظیم حاصل ہوگا۔ لڑائی تو آخری چارئہ کار ہے جو بہ امرمجبوری اختیار کیا جائے گا‘ اسی لیے رسول اللہﷺ نے لڑائی کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں جب مجبوراً لڑنا پڑے تو ڈٹ کر لڑیں۔ (2) ’’ثواب جاری رکھا جائے گا‘‘ جنگی تیاری صدقہ جاریہ کی طرح ہے کیونکہ اس کی برکت سے دشمن کا حوصلہ پست رہتا ہے اور اسلام کی اشاعت میں ترقی ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا فائدہ جاری ہے‘ لہٰذا اس کا ثواب بھی جاری رہے گا۔ باقی رہا رزق‘ تو مرنے کے بعد وہ کس طرح جاری رہتا ہے؟ اس کی کیفیت صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ (3) ’’امتحان لینے والوں‘‘ یعنی قبر میں سوال وجواب والے فرشتے اس کا امتحان نہیں لیں گے اس کا اس نیکی کی حالت میں فوت ہونا ہی اس کے مخلص مسلمان ہونے کی قاطع دلیل ہے‘ لہٰذا سوال وجواب کی ضرورت ہی نہیں۔ بعض نے اس سے مراد شیاطین لیے ہیں‘ یعنی شیاطین اسے مرتے وقت گمراہ نہیں کرسکیں گے۔ بعض نے اس سے عذاب والے فرشتے مراد لیے ہیں‘ یعنی اسے عذاب کا خطرہ نہیں رہے گا۔ دراصل عربی عبارت میں لفظ ’’فتان‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے یہ تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ واللّـٰہ أعلم۔ (4) ’’سلمان خیر‘‘ نام تو سلمان تھا جو کہ سلمان فارسی کے نام سے معروف ہیں۔ ان کی نیک نفسی کی وجہ سے انہیں سلمان خیر کہا گیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔