سنن النسائي - حدیث 3168

كِتَابُ الْجِهَادِ تَفْسِيرُ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَضْحَكُ اللَّهُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ كِلَاهُمَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلُ ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى الْقَاتِلِ فَيُقَاتِلُ فَيُسْتَشْهَدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3168

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل اس کی تفسیر اور وضاحت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ہر دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے‘ پھر دونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ (ان میں سے) ایک شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑائی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے‘ پھر اللہ تعالیٰ قاتل کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (وہ مسلمان ہوجاتا ہے) اور وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہید کردیا جاتاہے۔‘‘
تشریح : (1) مندرجہ بالا روایات میں تعجب کرنے‘ ہنسنے اور خوش ہونے کا ذکر ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال بلاریب درست ہے۔ مراد جو بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا مسئلہ ہماری عقل سے ماوراء ہے۔ اس کی بحث فضول ہے۔ قرآن وحدیث میں جو الفاظ وصفات اللہ تعا لیٰ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں‘ ان کا استعمال جائز ہے کہ رسول اللہﷺ کو لقمے اور ہدایات دے کر فلاں لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ فلاں کرنا چاہیے تھا۔ اللہ اور اس کے رسول سب سے بڑھ کر اور بخوبی علم رکھنے والے ہیں۔ (2) اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم اور رحمت کا واسعہ کا ذکر ہے کہ قاتل کی توبہ قول فرماکر اسے بھی جنت کا حق دار بنادیا۔ (3) اعمال کا دارومدار خاتمے اور انجام پر ہے۔ اگر خاتمہ بالخیر ہوا ہے تو پہلی زندگی کے گناہ کچھ نقصان نہیں دیں گے۔ اور اگر انجام براءی پر ہوا ہے تو پہلی زندگی کی نیکیاں کچھ کام نہیں آئیں گی۔ (1) مندرجہ بالا روایات میں تعجب کرنے‘ ہنسنے اور خوش ہونے کا ذکر ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال بلاریب درست ہے۔ مراد جو بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا مسئلہ ہماری عقل سے ماوراء ہے۔ اس کی بحث فضول ہے۔ قرآن وحدیث میں جو الفاظ وصفات اللہ تعا لیٰ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں‘ ان کا استعمال جائز ہے کہ رسول اللہﷺ کو لقمے اور ہدایات دے کر فلاں لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ فلاں کرنا چاہیے تھا۔ اللہ اور اس کے رسول سب سے بڑھ کر اور بخوبی علم رکھنے والے ہیں۔ (2) اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم اور رحمت کا واسعہ کا ذکر ہے کہ قاتل کی توبہ قول فرماکر اسے بھی جنت کا حق دار بنادیا۔ (3) اعمال کا دارومدار خاتمے اور انجام پر ہے۔ اگر خاتمہ بالخیر ہوا ہے تو پہلی زندگی کے گناہ کچھ نقصان نہیں دیں گے۔ اور اگر انجام براءی پر ہوا ہے تو پہلی زندگی کی نیکیاں کچھ کام نہیں آئیں گی۔