سنن النسائي - حدیث 3157

كِتَابُ الْجِهَادِ مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَلَيْهِ دَيْنٌ حسن صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ أَيُكَفِّرُ اللَّهُ عَنِّي سَيِّئَاتِي قَالَ نَعَمْ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ آنِفًا فَقَالَ الرَّجُلُ هَا أَنَا ذَا قَالَ مَا قُلْتَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ أَيُكَفِّرُ اللَّهُ عَنِّي سَيِّئَاتِي قَالَ نَعَمْ إِلَّا الدَّيْنَ سَارَّنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3157

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے ذمے قرض ہو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ وہ کہنے لگا: آپ فرمائیں اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدمی سے لڑتا ہوا مارا جاؤں جب کہ میری نیت بھی ثواب ہی کی ہو‘ رخ میدان جنگ کی طرف ہو‘ پیٹھ نہ ہو‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سب گناہ معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر آپ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر فرمایا: ’’وہ شخص کدھر ہے جس نے ابھی سوال کیا تھا؟‘‘ اس آدمی نے کہا: میں یہ کھڑا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تونے کیا کہا تھا؟‘‘ ا س نے کہا: اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدمی سے لڑتا ہوا مارا جاؤں جب کہ میری نیت بھی ثواب کی ہو۔ میرا رخ دشمن کی طرف ہو نہ کہ پیٹھ‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘ لیکن قرض (کسی کا واجب الادا حق معاف نہ ہوگا)۔ جبریل علیہ السلام نے یہ بات مجھے ابھی چپکے سے بتائی ہے۔‘‘
تشریح : (1) معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نیکی ’’شہادت‘‘ بھی حقوق العباد کی معافی کا ذریعہ نہیں بن سکتی تو دوسری نیکیوں کیونکر حقوق العباد کو ختم کرسکتی ہیں؟ الا یہ کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد نیکیاں بچ جائیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس پربھی کوئی ’حق‘‘واجب الادا ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ حق اداکرنے کے بعد بھی نیکیاں بچ جائیں‘ تو اسے کوئی چیز جنت میںجنے سے مانع نہ ہوگی۔ س حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ شہادت کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی واجب ہے‘ معاف نہیں ہوگی‘ نیز یہ بھی تب ہے اگر وہ اس حق کے برابر ترکہ چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر وہ اس حق کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑ گیا اور اس کی طرف سے دنیا ہی میں ادا کردیا گیا تو آخرت میں پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ الا یہ کہ ا س کا قصور ہو‘ یعنی وہ اس حق کی ادائیگی سے منع کرکے گیا ہو‘ وغیرہ۔ (2) ’’جبریل علیہ السلام نے‘‘ معلوم ہوتا وحی کی معروف صورت کے علاوہ بھی کبھی فرشتہ آپ سے براہ راست کلام کرتا تھا‘ البتہ قرآنی وحی مخصوص طریقے ہی سے آتی تھی جسے صحابہ پہنچاتے تھے۔ (1) معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نیکی ’’شہادت‘‘ بھی حقوق العباد کی معافی کا ذریعہ نہیں بن سکتی تو دوسری نیکیوں کیونکر حقوق العباد کو ختم کرسکتی ہیں؟ الا یہ کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد نیکیاں بچ جائیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس پربھی کوئی ’حق‘‘واجب الادا ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ حق اداکرنے کے بعد بھی نیکیاں بچ جائیں‘ تو اسے کوئی چیز جنت میںجنے سے مانع نہ ہوگی۔ س حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ شہادت کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی واجب ہے‘ معاف نہیں ہوگی‘ نیز یہ بھی تب ہے اگر وہ اس حق کے برابر ترکہ چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر وہ اس حق کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑ گیا اور اس کی طرف سے دنیا ہی میں ادا کردیا گیا تو آخرت میں پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ الا یہ کہ ا س کا قصور ہو‘ یعنی وہ اس حق کی ادائیگی سے منع کرکے گیا ہو‘ وغیرہ۔ (2) ’’جبریل علیہ السلام نے‘‘ معلوم ہوتا وحی کی معروف صورت کے علاوہ بھی کبھی فرشتہ آپ سے براہ راست کلام کرتا تھا‘ البتہ قرآنی وحی مخصوص طریقے ہی سے آتی تھی جسے صحابہ پہنچاتے تھے۔