سنن النسائي - حدیث 3155

كِتَابُ الْجِهَادِ تَمَنِّي الْقَتْلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمِيرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ النَّاسِ مِنْ نَفْسٍ مُسْلِمَةٍ يَقْبِضُهَا رَبُّهَا تُحِبُّ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْكُمْ وَأَنَّ لَهَا الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا غَيْرُ الشَّهِيدِ قَالَ ابْنُ أَبِي عَمِيرَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَنْ أُقْتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي أَهْلُ الْوَبَرِ وَالْمَدَرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3155

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہادت کی خواہش حضرت ابن ابی عمیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کوئی بھی مسلمان شخص جسے اس کا رب تعالیٰ اپنے پا س بلائے‘ یہ خواہش نہیں کرے گا کہ وہ تمہارے پاس (دنیا میں) واپس آجائے‘ خواہ اسے دنیا کی ہر چیز مل جائے‘ مگر شہید واپسی کی خواہش کرے گا۔‘‘ ابن عمیرہؓ نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہونا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ سب بدوی اور شہری میرے غلام بن جائیں۔‘‘
تشریح : (1) ’’مسلمان شخص‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں خوش وخرم ہوگا‘ البتہ کافر منافق تو درخواستیں کرے گاکہ مجھے واپس بھیجا جائے تاکہ اپنے گناہوں کی تلافی کرلوں مگر اس کی یہ درخواست قبول نہیں کی ہوگی۔ (2) ’’مگر شہید‘‘ کیونکہ وہ شہادت کا ثواب دیکھ لے گا اور چاہے گا کہ مجھے پھر جانے کا موقع ملے تاکہ میں دوبارہ شہادت پاؤں اور مزید درجہ حاصل کروں۔ شہید کی یہ خواہش دنیوی زندگی کے حصول کے لیے نہیں بلکہ شہادت کے حصول کے لیے ہوگی۔(3) غلام بن جائیں‘‘ گویا اتنے غلاموں کی آزادی کے ثواب بھی شہادت کی فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ یا اس سے مراد دنیوی بادشاہت ہے‘ یعنی تمام بدویوں اور شہریوں کی بادشاہی مجھے منظور نہیں کیونکہ آخر یہ فانی ہے اور شہادت کا ثواب باقی اور دائم رہے گا۔ (1) ’’مسلمان شخص‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں خوش وخرم ہوگا‘ البتہ کافر منافق تو درخواستیں کرے گاکہ مجھے واپس بھیجا جائے تاکہ اپنے گناہوں کی تلافی کرلوں مگر اس کی یہ درخواست قبول نہیں کی ہوگی۔ (2) ’’مگر شہید‘‘ کیونکہ وہ شہادت کا ثواب دیکھ لے گا اور چاہے گا کہ مجھے پھر جانے کا موقع ملے تاکہ میں دوبارہ شہادت پاؤں اور مزید درجہ حاصل کروں۔ شہید کی یہ خواہش دنیوی زندگی کے حصول کے لیے نہیں بلکہ شہادت کے حصول کے لیے ہوگی۔(3) غلام بن جائیں‘‘ گویا اتنے غلاموں کی آزادی کے ثواب بھی شہادت کی فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ یا اس سے مراد دنیوی بادشاہت ہے‘ یعنی تمام بدویوں اور شہریوں کی بادشاہی مجھے منظور نہیں کیونکہ آخر یہ فانی ہے اور شہادت کا ثواب باقی اور دائم رہے گا۔