سنن النسائي - حدیث 3151

كِتَابُ الْجِهَادِ مَا يَقُولُ مَنْ يَطْعَنُهُ الْعَدُوُّ حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَذَكَرَ آخَرَ قَبْلَهُ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَوَلَّى النَّاسُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةٍ فِي اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ وَفِيهِمْ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَأَدْرَكَهُمْ الْمُشْرِكُونَ فَالْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مَنْ لِلْقَوْمِ فَقَالَ طَلْحَةُ أَنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَنْتَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ أَنْتَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا الْمُشْرِكُونَ فَقَالَ مَنْ لِلْقَوْمِ فَقَالَ طَلْحَةُ أَنَا قَالَ كَمَا أَنْتَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا فَقَالَ أَنْتَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَلِكَ وَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَيُقَاتِلُ قِتَالَ مَنْ قَبْلَهُ حَتَّى يُقْتَلَ حَتَّى بَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِلْقَوْمِ فَقَالَ طَلْحَةُ أَنَا فَقَاتَلَ طَلْحَةُ قِتَالَ الْأَحَدَ عَشَرَ حَتَّى ضُرِبَتْ يَدُهُ فَقُطِعَتْ أَصَابِعُهُ فَقَالَ حَسِّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللَّهِ لَرَفَعَتْكَ الْمَلَائِكَةُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ ثُمَّ رَدَّ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3151

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جس شخص کو دشمن نیزہ مارے تو وہ (زخم خوردہ) کیا کہے؟ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب احد کا دن تھا اور لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہﷺ بارہ انصاریوں کے حصار میں (میدان کے) ایک کنارے میں (ڈٹے ہوئے) تھے۔ ان میں (ایک مہاجر) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ مشرکوں نے انہیں گھیرا تو رسول اللہﷺ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کون دشمنوں کا مقابلہ کرے گا؟‘‘ حضرت طلحہ نے کہا: میں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تو جس جگہ ہے وہیں ٹھہرا رہے‘‘ ایک انصاری نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں مقابلہ کرتا ہوں۔ فرمایا: ’ہاں‘ تو مقابلہ کر۔‘‘ اس نے لڑائی کی حتیٰ کہ وہ شہید ہوگیا۔ آپ نے پھر توجہ فرمائی تو مشرک ابھی تک موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’کون دشمنوں کا مقابلہ کرے گا؟‘‘ حضرت طلحہ نے کہا: میں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو جہاں ہے وہیں رہ۔‘‘ ایک اور انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں۔ فرمایا: ’’ہاں‘ تو مقابلہ کر۔‘‘ اس نے لڑائی لڑی حتیٰ کہ وہ بھی شہید ہوگیا۔ آپ برابر یہی فرماتے رہے اور ایک ایک انصاری نکلتا رہا اور اپنے پیشرو کی طرح لڑائی کرتا رہا اور شہید ہوتا رہا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ہی باقی رہ گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کون دشمنوں کا مقابلہ کرے گا؟‘‘ حضرت طلحہ نے کہا: میں کیا کروںگا۔ اور انہوں نے لڑائی شروع کردی۔ اور وہ اپنے پیشرو گیارہ انصاریوں کی طرح لڑے حتیٰـ کہ ان کے ہاتھ پر تلوار لگی اور انگلیاں کٹ گئیں۔ تو ان کے منہ سے ’’حَسَّ‘‘ (اوئی وغیرہ) نکلا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’(جب تجھے زخم لگاتھا) اگر تو بسم اللہ کہتا تو تجھے فرشتے اٹھا لیتے۔ اور لوگ دیکھتے رہتے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو پھیر دیا۔
تشریح : (1) ’’بارہ انصاری‘‘ یہ ایک مخصوص وقت کی بات ہے ورنہ بہت سے مہاجرین بھی ثابت قدم رہے تھے۔ گویا وہ میدان احد کے دوسرے اطراف میں داد شجاعت دے رہے تھے‘ جبکہ رسول اللہﷺ ا س وقت انصار کے ایک گروہ میں تھے۔ یہ گیارہ انصاری تھے۔ حضرت طلحہ (مہاجر) کو ملا کر تغلیباً بارہ انصاری کہہ دیا۔ (2) ’’بسم اللہ پڑھتا‘‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بسم اللہ پڑھنے والے کو فرشتے اٹھالیں۔ یہ صرف حضرت طلحہ کے ساتھ خاص تھا‘ البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوٹ لگنے کے موقع پر اللہ کا نام لینا چاہیے نہ کہ ہائے وائے پکارتا ہے۔ یہ مروت کے خلاف ہے‘ نیز اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے قوت برداشت پیدا ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام روحانیت کو زیادہ کرتا ہے‘ پھر اس سے انسان کا ایمان ظاہر ہوتا ہے اور مومن وکافر کے درمیان امتیاز حاصل ہوجاتا ہے۔ (1) ’’بارہ انصاری‘‘ یہ ایک مخصوص وقت کی بات ہے ورنہ بہت سے مہاجرین بھی ثابت قدم رہے تھے۔ گویا وہ میدان احد کے دوسرے اطراف میں داد شجاعت دے رہے تھے‘ جبکہ رسول اللہﷺ ا س وقت انصار کے ایک گروہ میں تھے۔ یہ گیارہ انصاری تھے۔ حضرت طلحہ (مہاجر) کو ملا کر تغلیباً بارہ انصاری کہہ دیا۔ (2) ’’بسم اللہ پڑھتا‘‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بسم اللہ پڑھنے والے کو فرشتے اٹھالیں۔ یہ صرف حضرت طلحہ کے ساتھ خاص تھا‘ البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوٹ لگنے کے موقع پر اللہ کا نام لینا چاہیے نہ کہ ہائے وائے پکارتا ہے۔ یہ مروت کے خلاف ہے‘ نیز اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے قوت برداشت پیدا ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام روحانیت کو زیادہ کرتا ہے‘ پھر اس سے انسان کا ایمان ظاہر ہوتا ہے اور مومن وکافر کے درمیان امتیاز حاصل ہوجاتا ہے۔