سنن النسائي - حدیث 315

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب التَّيَمُّمِ فِي السَّفَرِ صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَمَّارٍ قَالَ عَرَّسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُولَاتِ الْجَيْشِ وَمَعَهُ عَائِشَةُ زَوْجَتُهُ فَانْقَطَعَ عِقْدُهَا مِنْ جَزْعِ ظِفَارِ فَحُبِسَ النَّاسُ ابْتِغَاءَ عِقْدِهَا ذَلِكَ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ وَلَيْسَ مَعَ النَّاسِ مَاءٌ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ حَبَسْتِ النَّاسَ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّa رُخْصَةَ التَّيَمُّمِ بِالصَّعِيدِ قَالَ فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبُوا بِأَيْدِيهِمْ الْأَرْضَ ثُمَّ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَلَمْ يَنْفُضُوا مِنْ التُّرَابِ شَيْئًا فَمَسَحُوا بِهَا وُجُوهَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَمِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ إِلَى الْآبَاطِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 315

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ سفر میں تیمم کرنا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات الجیش میں پڑاؤ ڈالا جب کہ آپ کے ساتھ آپ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ ان کا ایک ہار جو ظفار کے نگوں کا تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ لوگ اس ہار کی تلاش میں روک لیے گئے حتی کہ فجر روشن ہوگئی۔ لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر ناراض ہوئے اور فرمایا: تم نے سب لوگوں کو روک رکھا ہے جب کہ ان کے پاس پانی نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کے ساتھ تیمم کی رخصت نازل فرما دی۔ تمام مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اٹھے اور زمین پر اپنےہاتھ مارے۔ پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کوئی مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی، سو انھوں نے اپنے چہروں اور بازوؤں کو کندھوں تک اور اپنی ہتھیلیوں سے بغلوں تک ہاتھ پھیر لیے۔
تشریح : (۱) یہ روایت پیچھے گزر چیک ہے (دیکھیے، روایت: ۳۱۱) ’’مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی‘‘ مٹی جھاڑنا ضرورت کی بنا پر ہے، یعنی اگر مٹی زیادہ لگ جائے تو پھونک مار کر یا دونوں ہاتھوں کو آپس میں ٹکرا کر زائد مٹی گرا دی جائے اور اگر مٹی مناسب لگی ہے تو پھونک مارنا یا مٹی جھاڑنا بے فائدہ ہے۔ بہر صورت مٹی جھاڑنا تیمم کا حصہ نہیں۔ (۲) کندھوں اور بغلوں تک تیمم کرنا باقی روایات کے خلاف ہے، اس لیے بعض محققین نے مسح میں کندھوں، بغلوں اور کہنیوں تک مسح کرنے کو صحیح نہیں کہا بلکہ ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن أبی داود للألبانی، رقم: ۳۴۴، ۳۴۵، و صحیح سنن النسائي، رقم: ۳۱۵) بعض لوگوں نے اپنے طور پر ایسا کر لیا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول نہیں اور یہ کام بھی نزول حکم کے بعد پہلی بار تیمم کرتے ہوئے کیا گیا تھا جب کہ بعد میں اس کا طریقہ سنت نبوی سے متعین ہوگیا۔ (۱) یہ روایت پیچھے گزر چیک ہے (دیکھیے، روایت: ۳۱۱) ’’مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی‘‘ مٹی جھاڑنا ضرورت کی بنا پر ہے، یعنی اگر مٹی زیادہ لگ جائے تو پھونک مار کر یا دونوں ہاتھوں کو آپس میں ٹکرا کر زائد مٹی گرا دی جائے اور اگر مٹی مناسب لگی ہے تو پھونک مارنا یا مٹی جھاڑنا بے فائدہ ہے۔ بہر صورت مٹی جھاڑنا تیمم کا حصہ نہیں۔ (۲) کندھوں اور بغلوں تک تیمم کرنا باقی روایات کے خلاف ہے، اس لیے بعض محققین نے مسح میں کندھوں، بغلوں اور کہنیوں تک مسح کرنے کو صحیح نہیں کہا بلکہ ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن أبی داود للألبانی، رقم: ۳۴۴، ۳۴۵، و صحیح سنن النسائي، رقم: ۳۱۵) بعض لوگوں نے اپنے طور پر ایسا کر لیا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول نہیں اور یہ کام بھی نزول حکم کے بعد پہلی بار تیمم کرتے ہوئے کیا گیا تھا جب کہ بعد میں اس کا طریقہ سنت نبوی سے متعین ہوگیا۔