سنن النسائي - حدیث 3146

كِتَابُ الْجِهَادِ ثَوَابُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ قَالَ لِكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ يَا كَعْبُ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ لَهُ حَدِّثْنَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ ارْمُوا مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً قَالَ ابْنُ النَّحَّامِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الدَّرَجَةُ قَالَ أَمَا إِنَّهَا لَيْسَتْ بِعَتَبَةِ أُمِّكَ وَلَكِنْ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3146

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل اس شخص کا ثواب جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں تیر چلائے حضرت شرجیل بن سمط نے حضرت کعب بن مروہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے کعب! ہمیں رسول اللہﷺ سے کوئی حدیث بیان فرمائیں اور اس سلسلے میں پوری احتیاط فرمائیں (کہ حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ ہو۔) انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ’’جس آدمی کے بال اسلام میں اللہ کے راستے میں سفید ہوگئے‘ وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور بن جائیں گے۔‘‘ انہوں نے پھر کہا: ہمیں رسول اللہﷺ سے ایک اور حدیث بیان فرمائیے اور پوری پوری احتیاط فرمائیے (کہ کمی بیشی نہ ہو۔) انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ’’تیر اندازی کیا کرو۔ جو شخص دشمن تک تیر پہنچائے‘ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا۔‘‘ (یہ سن کر) حضرت ابن نجام رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! درجے سے کیا مردا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ درجہ تیری ماں کے گھر کی چوکھٹ کے برابر نہیں بلکہ (جنت کے) دودرجوں کے درمیان سوسال کافاصلہ ہے۔‘‘
تشریح : 1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے اور دلائل کی رو سے یہی بات راجح اور درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت صحیح ہے‘ نیز محقق کتاب نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس روایت کے بعض حصے کے شواہد صحیح مسلم (۱۵۰۹) میں ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۶/ ۲۱۲۔۲۱۴‘ وصحیح سنن النسائی لألبانی: ۲/ ۳۸۵‘ رقم:۳۱۴۴) (2) ’’تیری ماں‘‘ اگرچہ کسی کے منہ پر اس کی ماںکا ذکر کرنا عرف عام میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ خصوصاً جب کہ متعلقہ شخص اسے محسوس بھی نہ کرے۔ رسول ا للہﷺ کا تعلق اپنے صحابہ سے بہت گہرا تھا۔ صحابہ کی مائیں اپنے بیٹوں کی زبانی آپ کو سلام ودعا کا پیغام بھیجتی تھیں‘ لہٰذا آپ کی زبان پر ایسا ذکر ان کے لیے خوش طبعی کا موجب تھا۔ ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق کلام کرتا ہے۔ سب پر ایک ہی حکم لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ 1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے اور دلائل کی رو سے یہی بات راجح اور درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت صحیح ہے‘ نیز محقق کتاب نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس روایت کے بعض حصے کے شواہد صحیح مسلم (۱۵۰۹) میں ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۶/ ۲۱۲۔۲۱۴‘ وصحیح سنن النسائی لألبانی: ۲/ ۳۸۵‘ رقم:۳۱۴۴) (2) ’’تیری ماں‘‘ اگرچہ کسی کے منہ پر اس کی ماںکا ذکر کرنا عرف عام میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ خصوصاً جب کہ متعلقہ شخص اسے محسوس بھی نہ کرے۔ رسول ا للہﷺ کا تعلق اپنے صحابہ سے بہت گہرا تھا۔ صحابہ کی مائیں اپنے بیٹوں کی زبانی آپ کو سلام ودعا کا پیغام بھیجتی تھیں‘ لہٰذا آپ کی زبان پر ایسا ذکر ان کے لیے خوش طبعی کا موجب تھا۔ ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق کلام کرتا ہے۔ سب پر ایک ہی حکم لاگو نہیں کیا جاسکتا۔