سنن النسائي - حدیث 3139

كِتَابُ الْجِهَادِ مَنْ قَاتَلَ لِيُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ قَالَ تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ أَيُّهَا الشَّيْخُ حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا فَقَالَ مَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ وَلَمْ أَفْهَمْ تُحِبُّ كَمَا أَرَدْتُ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنْ لِيُقَالَ إِنَّهُ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ فَأُلْقِيَ فِي النَّارِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3139

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جو شخص بہادر کہلانے کے لیے لڑے حضرت سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس اٹھ کر چلے گئے تو شام والوں میں سے ناتل نامی ایک شخص نے کہا: بزرگوار محترم! مجھے کوئی ایسی حدیث بیان کیجیے جو آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ’’سب سے پہلے جن کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا‘ تین اشخاص ہوں گے: ایک وہ آدمی جو شہید ہوا۔ اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے احسانات گنوائے گا۔ وہ انہیں تسلیم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو ان نعمتوں کے بدلے میں کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ تو اس لیے لڑا تھا کہ کہا جائے: فلاں شخص بہت بہادر ہے۔ یہ بات (دنیا میں) بہت کہہ دی گئی‘ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ دوسرا وہ شخص جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اسے بھی لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے احسانات گنوائے گا۔ وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا۔ اور تیری رضا مندی کے لیے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ تو نے تو اس لیے علم سیکھا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے۔ یہ سب کچھ تو کہہ دیا گیا۔ اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔اور تیسرا شخص کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر وسعت فرمائی اور اسے ہر قسم کا مال دیا۔ اسے بھی لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یا ددلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟ وہ کہا گا: میں نے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہو۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ میں (اپنے استاد سے) ’’تُحِبُّ‘‘ کالفظ اس طرح نہیں سمجھ سکا جس طرح میں چاہتا تھا…… کہ خرچ کیا جائے مگر میں نے تیری رضا مندی کے لیے اس جگہ خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا‘ بلکہ تو نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ لوگ کہیں کہ یہ بہت بڑا سخی ہے۔ یہ بات تو (دنیا میں) کہہ دی گئی‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
تشریح : (1) مقصد یہ ہے کہ اعمال کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں‘ نیت صحیح نہ ہو تو وہ اعمال ثواب کی بجائے الٹا عذاب کا ذریعہ بن جائیں گے‘ خواہ لوگ اس کی وقتی طور پر تعریف کریں یا نہ کریں۔ ظاہر الفاظ سے شبہ پڑتا ہے کہ لوگ تعریف کریں تب اسے عذاب ہوگا لیکن یہ مطلب صحیح نہیں۔ عذاب کا تعلق نیت کی خرابی سے ہے نہ کہ لوگوں کے تعریف کرنے سے۔ اگرصحیح نیت ہو تو لوگوں کی تعریف نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ مخلوق کی گواہی اس کی نجات اور رفع درجات کا سبب بنے گی۔ (1) ’’ناتل‘‘ یہ سائل کا نام ہے۔ ناتل بن قیس۔ (3) ’’تونے جھوٹ بولا‘‘ یعنی دعوئی اخلاص میں‘ ورنہ ظاہر ہے واقعہ تو درست ہے۔ (4) ’’آگ میں پھینک دیا جائے گا‘‘ کیونکہ دین میں ریا کاری شرک اصغر ہے۔ (1) مقصد یہ ہے کہ اعمال کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں‘ نیت صحیح نہ ہو تو وہ اعمال ثواب کی بجائے الٹا عذاب کا ذریعہ بن جائیں گے‘ خواہ لوگ اس کی وقتی طور پر تعریف کریں یا نہ کریں۔ ظاہر الفاظ سے شبہ پڑتا ہے کہ لوگ تعریف کریں تب اسے عذاب ہوگا لیکن یہ مطلب صحیح نہیں۔ عذاب کا تعلق نیت کی خرابی سے ہے نہ کہ لوگوں کے تعریف کرنے سے۔ اگرصحیح نیت ہو تو لوگوں کی تعریف نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ مخلوق کی گواہی اس کی نجات اور رفع درجات کا سبب بنے گی۔ (1) ’’ناتل‘‘ یہ سائل کا نام ہے۔ ناتل بن قیس۔ (3) ’’تونے جھوٹ بولا‘‘ یعنی دعوئی اخلاص میں‘ ورنہ ظاہر ہے واقعہ تو درست ہے۔ (4) ’’آگ میں پھینک دیا جائے گا‘‘ کیونکہ دین میں ریا کاری شرک اصغر ہے۔