سنن النسائي - حدیث 311

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب بَدْءِ التَّيَمُّمِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ ذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالُوا أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ فَقَالَ حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ قَالَتْ عَائِشَةُ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ وَجَعَلَ يَطْعُنُ بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَمَا مَنَعَنِي مِنْ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 311

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ تیمم کی ابتدا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے حتی کہ جب ہم بیداء یا ذات الحبیش مقام پر پہنچے تو میرا ہار گر گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تلاش کرنے کے لیے ٹھہر گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ ٹھہر گئے جب کہ نہ وہاں پانی تھا اور نہ ان کے پاس پانی تھا۔ کچھ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور (شکایتاً) کہا: آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا ہے؟ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو ٹھہرا لیا ہے جب کہ نہ تو یہاں پانی ہے اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ (یہ باتیں سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری رات پر سر رکھ کر سو رہے تھے۔ وہ آکر کہنے لگے: تم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو روک رکھا ہے جب کہ نہ یہاں پانی ہے اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خوب ڈانٹا اور جو کہنا چاہا، کہا اور وہ میرے پہلو میں کچو کے مارنے لگے۔ میں حرکت کرنے سے صرف اس لیے رکی رہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری رات پر تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے حتی کہ بغیر پانی کے صبح ہوگئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے تیمم والی آیت اتار دی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے آل ابوبکر! یہ تمھاری کوئی پہلی برکت نہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا: پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں تھی تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔
تشریح : (۱) یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی بہن اسماء سے صرف پہننے کے لیے لیا تھا۔ (۲) یہ واقعہ دلیل ہے کہ کوئی شخص عام الغیب نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خبر نہ دے ورنہ ادھر ادھر تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کل یہ کہا جانے لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب تو جانتے تھے مگر تواضعا اور کسر نفسی کے پیش نظر آپ نے باخبر نہیں کیا اور خاموش رہے، یہ نرا اٹکل پچو اور بے دلیل مفروضہ ہے نیز اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر ادھر سے ڈھونڈنا بے مقصد ٹھہرتا ہے اور یہ طریقہ شان رسالت کے یکسر منافی ہے۔ (۱) یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی بہن اسماء سے صرف پہننے کے لیے لیا تھا۔ (۲) یہ واقعہ دلیل ہے کہ کوئی شخص عام الغیب نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خبر نہ دے ورنہ ادھر ادھر تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کل یہ کہا جانے لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب تو جانتے تھے مگر تواضعا اور کسر نفسی کے پیش نظر آپ نے باخبر نہیں کیا اور خاموش رہے، یہ نرا اٹکل پچو اور بے دلیل مفروضہ ہے نیز اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر ادھر سے ڈھونڈنا بے مقصد ٹھہرتا ہے اور یہ طریقہ شان رسالت کے یکسر منافی ہے۔