سنن النسائي - حدیث 3107

كِتَابُ الْجِهَادِ فَضْلُ مَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ صحيح أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ قَالَ مَنْ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ ثُمَّ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ثُمَّ مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنْ الشِّعَابِ يَتَّقِي اللَّهَ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3107

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کرے‘ اس کی فضیلت؟ حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول ا للہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! سب لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے نفس ومال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے۔‘‘ اس نے کہا: اللہ کے رسول! پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ’’پھر وہ مومن جو کسی پہاڑی وادی میں فروکش ہوگیا ہو‘ اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہو اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہو۔‘‘
تشریح : (1) ’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں‘‘ یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے۔ ریا کاری‘ شہرت یا دنیوی مقاصد کا حصول مدنظر ہو نہ ہو اس کی بنیاد عصیبت ہو۔ (2) ’’پہاڑی وادی‘‘ یہ مخصوص حالات کی بات ہے وگرنہ عام حالات میں گوشہ نشینی اور مسلم معاشرے سے علیحدگی جائز نہیں۔ نماز باجماعت اور جمعہ فرض ہیں۔ بیماروں کی بیمار پرسی کرنا اور ضعیفوں کی مدد کرنا بھی مسلمانوں کے حقوق میں سے ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے کے اندر رہ کرہی ممکن ہے۔ اکیلا شخص ان سب فرائض اور حقوق کا تارک ہوگا۔ وہ افضل کیسے ہوسکتا ہے؟ البتہ جب معاشرے میں رہ کر دین کے ضائع ہونے کا قوی امکان اور خطرہ موجود ہو تو گوشہ نشینی بہتر ہے‘ مگر موہوم خطرات کے پیش نظر جائز نہیں۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہ نے انتہائی تکالیف برداشت کرکے بھی معاشرے کو نہیں چھوڑا بکہ اصلاح کی کوشش کرتے رہے‘ نیز تبلیغ بھی تو ایک فریضہ ہے اور یہ معاشرے میں رہ کر ہی ممکن ہے‘ لہٰذا مندرجہ بالا حدیث انتہائی حالات کے ساتھ مخصوص ہے۔ (1) ’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں‘‘ یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے۔ ریا کاری‘ شہرت یا دنیوی مقاصد کا حصول مدنظر ہو نہ ہو اس کی بنیاد عصیبت ہو۔ (2) ’’پہاڑی وادی‘‘ یہ مخصوص حالات کی بات ہے وگرنہ عام حالات میں گوشہ نشینی اور مسلم معاشرے سے علیحدگی جائز نہیں۔ نماز باجماعت اور جمعہ فرض ہیں۔ بیماروں کی بیمار پرسی کرنا اور ضعیفوں کی مدد کرنا بھی مسلمانوں کے حقوق میں سے ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے کے اندر رہ کرہی ممکن ہے۔ اکیلا شخص ان سب فرائض اور حقوق کا تارک ہوگا۔ وہ افضل کیسے ہوسکتا ہے؟ البتہ جب معاشرے میں رہ کر دین کے ضائع ہونے کا قوی امکان اور خطرہ موجود ہو تو گوشہ نشینی بہتر ہے‘ مگر موہوم خطرات کے پیش نظر جائز نہیں۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہ نے انتہائی تکالیف برداشت کرکے بھی معاشرے کو نہیں چھوڑا بکہ اصلاح کی کوشش کرتے رہے‘ نیز تبلیغ بھی تو ایک فریضہ ہے اور یہ معاشرے میں رہ کر ہی ممکن ہے‘ لہٰذا مندرجہ بالا حدیث انتہائی حالات کے ساتھ مخصوص ہے۔