سنن النسائي - حدیث 3106

كِتَابُ الْجِهَادِ الرُّخْصَةُ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَةٌ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ طَلْحَةَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3106

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جس شخص کی والدہ ہو‘ اسے بھی جنگ سے پیچھے رہنے کی اجازت ہے حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ (میرے والدمحترم) حضرت جاہمہؓ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیری والدہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ’ا س کے پاس ہی رہ (اور خدمت کر)۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے۔‘‘
تشریح : ’’جنت اس کے پاؤں تلے ہے‘‘ یہ ایک محاورہ ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کی خدمت کرنے سے تجھے جنت حاصل ہوگی‘ پھر اس کی خدمت تیرا فرض بھی ہے۔ جہاد سے بھی جنت ہی حاصل ہوگی مگر وہ تجھ پر فرض نہیں‘ لہٰذا اپنا فرض ادا کرکے جنت حاصل کر۔ ’’جنت اس کے پاؤں تلے ہے‘‘ یہ ایک محاورہ ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کی خدمت کرنے سے تجھے جنت حاصل ہوگی‘ پھر اس کی خدمت تیرا فرض بھی ہے۔ جہاد سے بھی جنت ہی حاصل ہوگی مگر وہ تجھ پر فرض نہیں‘ لہٰذا اپنا فرض ادا کرکے جنت حاصل کر۔