سنن النسائي - حدیث 3105

كِتَابُ الْجِهَادِ الرُّخْصَةُ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَانِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةَ قَالَا حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ فَقَالَ أَحَيٌّ وَالِدَاكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3105

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جس شخص کے والدین (حاجت مند) ہوں اسے پیچھے رہنے کی اجازت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔ وہ آپ سے جہاد کی اجازت طلب کرتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:’’تیرے والدین زندہ ہیں؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تو ان کی خدمت کر۔ یہی جہاد ہے۔‘‘
تشریح : باب اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جہاد فرض عین نہیں‘ فرض کفایہ ہے‘ لہٰذا اگر کسی شخص کا گھر رہنا ضروری ہو‘ مثلا: والدین کی خدمت وغیرہ کے لیے‘ تو وہ جہاد کو نہ جائے۔ گھر رہ کر والدین اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرے۔ اس کے لیے یہی جہاد ہے۔ ہاں جس شخص پر جہاد فرض عین ہوجائے‘ مثلاً: سرکاری فوجی یا جب امیر سب کو نکلنے کا حکم دے تو پھر اسے بھی جانا پڑے گا۔ باب اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جہاد فرض عین نہیں‘ فرض کفایہ ہے‘ لہٰذا اگر کسی شخص کا گھر رہنا ضروری ہو‘ مثلا: والدین کی خدمت وغیرہ کے لیے‘ تو وہ جہاد کو نہ جائے۔ گھر رہ کر والدین اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرے۔ اس کے لیے یہی جہاد ہے۔ ہاں جس شخص پر جہاد فرض عین ہوجائے‘ مثلاً: سرکاری فوجی یا جب امیر سب کو نکلنے کا حکم دے تو پھر اسے بھی جانا پڑے گا۔