سنن النسائي - حدیث 3101

كِتَابُ الْجِهَادِ فَضْلُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَيْهِ فَحَدَّثَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَجَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ سَتُرَضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ هَذَا لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ يَرْوِي عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ لَيْسَ بِثِقَةٍ(النساء(95)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3101

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل (جہاد سے پیچھے) بیٹھ رہنے والوں پر مجاہدین کی فضیلت کا بیان حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ میں نے مروان بن حکم کو بیٹھے دیکھا تو میں بھی آکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ انہوں نے ہمیں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ پر یہ آیت اتری: {لاَ یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} گھروں میں بیٹھ رہنے والے مومن اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے‘‘ تو حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے جب کہ آپﷺ یہ آیت مجھے لکھوارہے تھے۔ وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! اگر میں جہاد کرنے کی طاقت رکھتا تو میں ضرور جہاد کرتا۔ اللہ عزوجل نے یہ الفاظ اتاردیے: {غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ} ’’بشرطیکہ وہ معذور نہ ہوں۔‘‘ اس وقت رسول اللہﷺ کی ران مبارک میری ران پر تھی (وحی کی حالت کی وجہ سے) مجھ پر اس قدر بوجھ پڑا کہ مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ میرا ران ٹوٹ جائے گی‘ پھر آپ سے وحی کی حالت ختم ہوئی تو آپ نے یہ الفاظ پڑھے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ یہ عبدالرحمن بن اسحاق (سند میں مذکو امام زہری رحمہ اللہ کا شاگرد) معتبر ہے‘ اس میں کوئی خرابی نہیں اور وہ عبدالرحمن بن اسحاق جس سے علی بن مسہر‘ ابو معاویہ اور عبدالواحد بن زیاد روایت کرتے ہیں اور وہ خود نعمان بن سعد سے بیان کرتا ہے‘ ثقہ اور معتبر نہیں۔
تشریح : (1) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا بلکہ قربان کردینا کوئی معمولی نیکی نہیں۔ اسی لیے مجاہدین کو دوسرے نیک لوگوں پر بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے مگر معذور شحص جہاد کی نیت رکھے تو اسے بھی جہاد کا ثواب ملے گا۔ (2) حضرت ابن کلثوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ عربی زبان میں ’’مکتوم‘‘ نابینے کو کہتے ہیں۔ ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ اکثر محققین نے عبداللہ بتایا ہے۔ بعض نے عمرو بھی کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ (3) {غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ} (النسائ۴:۹۵) کے الفاظ کے بعد میں اترنے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اگر یہ ا لفاظ نہ ہوتے تب بھی شرعی ادول کی رو سے معذور کی رخصت ہے اور نیت کا اجر ملنا بھی قطعی مسئلہ ہے‘ تاہم جہاد کی اہمیت کے پیش نظر وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو وضاحت کردی گئی۔ (1) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا بلکہ قربان کردینا کوئی معمولی نیکی نہیں۔ اسی لیے مجاہدین کو دوسرے نیک لوگوں پر بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے مگر معذور شحص جہاد کی نیت رکھے تو اسے بھی جہاد کا ثواب ملے گا۔ (2) حضرت ابن کلثوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ عربی زبان میں ’’مکتوم‘‘ نابینے کو کہتے ہیں۔ ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ اکثر محققین نے عبداللہ بتایا ہے۔ بعض نے عمرو بھی کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ (3) {غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ} (النسائ۴:۹۵) کے الفاظ کے بعد میں اترنے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اگر یہ ا لفاظ نہ ہوتے تب بھی شرعی ادول کی رو سے معذور کی رخصت ہے اور نیت کا اجر ملنا بھی قطعی مسئلہ ہے‘ تاہم جہاد کی اہمیت کے پیش نظر وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو وضاحت کردی گئی۔