سنن النسائي - حدیث 3098

كِتَابُ الْجِهَادِ وُجُوبِ الْجِهَادِ صحيح أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3098

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جہاد فرض ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’تم مشرکین کے ساتھ اپنے مالوں‘ ہاتھوں اور اپنی زبانوں کے ساتھ جہاد کرو۔‘‘
تشریح : (1) امام نسائی رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا (12) احادیث سے جہاد کے وجوب وفرضیت پر استدلال کیا ہے کیونکہ ان میں جہاد کا حکم صراحتاً مذکور ہے‘ البتہ اس وجوب کی شرعی حیثیت سمجھنے کے لیے حدیث ۳۰۸۷ کی تفصیل وتشریح مدنظر رکھنی چاہیے۔ (2) جہاد نفس کے ساتھ بھی فرض ہے اور مال کے ساتھ بھی‘ یعنی ملکر ضروریات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کیا جائے تاکہ حکومت دفاع کو مضبوط بنائے‘ نیز جنگی تیاری قائم رہے جسے دیکھ کر دشمن شرارت سے باز رہے۔ (3) زبان کے ساتھ جہاد یہ ہے کہ کافروں کو تبلیغ کرے‘ مسلمانوں کو جہاد پر ابھارے‘ اسلامی فوج کی تعریف کرکے ان کا حوصلہ بڑھائے اور دشمن کی ہجو کرکے ان کو بددل کرے۔ (4) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ محققین کی تفصیلی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہی أقرب ألی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیہ مسند الامام أحمد: ۱۹/ ۱۷۲‘ وصحیح نسائی أبی داود (مفصل) لألبانی: ۷/ ۲۶۵‘ رقم: ۲۲۶۲) (1) امام نسائی رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا (12) احادیث سے جہاد کے وجوب وفرضیت پر استدلال کیا ہے کیونکہ ان میں جہاد کا حکم صراحتاً مذکور ہے‘ البتہ اس وجوب کی شرعی حیثیت سمجھنے کے لیے حدیث ۳۰۸۷ کی تفصیل وتشریح مدنظر رکھنی چاہیے۔ (2) جہاد نفس کے ساتھ بھی فرض ہے اور مال کے ساتھ بھی‘ یعنی ملکر ضروریات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کیا جائے تاکہ حکومت دفاع کو مضبوط بنائے‘ نیز جنگی تیاری قائم رہے جسے دیکھ کر دشمن شرارت سے باز رہے۔ (3) زبان کے ساتھ جہاد یہ ہے کہ کافروں کو تبلیغ کرے‘ مسلمانوں کو جہاد پر ابھارے‘ اسلامی فوج کی تعریف کرکے ان کا حوصلہ بڑھائے اور دشمن کی ہجو کرکے ان کو بددل کرے۔ (4) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ محققین کی تفصیلی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہی أقرب ألی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیہ مسند الامام أحمد: ۱۹/ ۱۷۲‘ وصحیح نسائی أبی داود (مفصل) لألبانی: ۷/ ۲۶۵‘ رقم: ۲۲۶۲)