سنن النسائي - حدیث 3096

كِتَابُ الْجِهَادِ وُجُوبِ الْجِهَادِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُو الْعَوَّامِ الْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّتْ الْعَرَبُ قَالَ عُمَرُ يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ الْعَرَبَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا مِمَّا كَانُوا يُعْطُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَأْيَ أَبِي بَكْرٍ قَدْ شُرِحَ عَلِمْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَهَذَا الْحَدِيثُ خَطَأٌ وَالَّذِي قَبْلَهُ الصَّوَابُ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3096

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جہاد فرض ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تو بہت سے عرب مرتد ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوبکر! آپ ان عربوں سے کس بنیاد پر لڑیں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺنے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی جاری رکھوں حتیٰ کہ وہ گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ اداکریں۔‘‘ اللہ کی قسم! اگر وہ بکری کا ایک بچہ بھی روک لیں جو وہ رسول اللہﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پر غور کیا (اور دیکھا کہ) ان کا سینہ اللہ کی طرف سے کھول دیا گیا ہے‘ تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہی بات برحق ہے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائیl) بیان کرتے ہیں کہ راوی عمر ان قطان علم حدیث میں قوی نہیں اور یہ حدیث (سند کے لحاظ سے) غلط ہے۔ صحیح روایت پہلی (۳۰۹۳، ۳۰۹۴) ہے‘ یعنی حدیثِ زھری عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبۃ عن أبی ھریرہ۔
تشریح : (۱)امام نسائی یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں عمران ابوالعوام قطان علم حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ وہ اس روایت کو حضرت انس کی مسند بناتے ہیں جبکہ دیگر روای اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بناتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اجادیث: ۳۰۹۳ اور ۳۰۹۴ سے واضح ہے اور درست بھی یہی ہے۔ تام اس اختلاف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ حدیث دوسری اسناد کے ساتھ بالکل صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ (2) ’’مرتد ہوگئے‘‘ مرتدین کی کئی قسمیں ہیں مگر یہاں اختلاف مانعین زکاۃ کے بارے میں ہے جن کاموقف تھاکہ زکاۃ صرف رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص تھی‘ کوئی دوسرا وصول نہیں کرسکتا‘ حالانکہ آپ نے زکاۃ بطور امیر یا حاکم وصول فرماتی تھی ورنہ آپ کے لیے تو جائز ہی نہ تھی‘ لہٰذا اب جو نبیﷺ کا نائب بنے گا وہ بھی بطور حاکم وصول کرے گا ورنہ افراتفری پھیل جائے گی‘ زکاۃ کافریضہ ترک ہوجائے گا‘ حالانکہ رسول اللہﷺ نے نماز اور زکاۃ دونوں کو مسلمان ہونے کے لیے شرط قراردیا ہے‘ نیز زکاۃ نہ دینے والا حکومت کا باغی ہے اور باغی سے لڑائی بالاتفاق جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دلائل سے ان کی سمجھ میں آگیا کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ ہی کافی نہیں کچھ دوسرے امور بھی ضروری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی مذکور میں وضاحت ہے۔ (۱)امام نسائی یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں عمران ابوالعوام قطان علم حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ وہ اس روایت کو حضرت انس کی مسند بناتے ہیں جبکہ دیگر روای اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بناتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اجادیث: ۳۰۹۳ اور ۳۰۹۴ سے واضح ہے اور درست بھی یہی ہے۔ تام اس اختلاف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ حدیث دوسری اسناد کے ساتھ بالکل صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ (2) ’’مرتد ہوگئے‘‘ مرتدین کی کئی قسمیں ہیں مگر یہاں اختلاف مانعین زکاۃ کے بارے میں ہے جن کاموقف تھاکہ زکاۃ صرف رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص تھی‘ کوئی دوسرا وصول نہیں کرسکتا‘ حالانکہ آپ نے زکاۃ بطور امیر یا حاکم وصول فرماتی تھی ورنہ آپ کے لیے تو جائز ہی نہ تھی‘ لہٰذا اب جو نبیﷺ کا نائب بنے گا وہ بھی بطور حاکم وصول کرے گا ورنہ افراتفری پھیل جائے گی‘ زکاۃ کافریضہ ترک ہوجائے گا‘ حالانکہ رسول اللہﷺ نے نماز اور زکاۃ دونوں کو مسلمان ہونے کے لیے شرط قراردیا ہے‘ نیز زکاۃ نہ دینے والا حکومت کا باغی ہے اور باغی سے لڑائی بالاتفاق جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دلائل سے ان کی سمجھ میں آگیا کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ ہی کافی نہیں کچھ دوسرے امور بھی ضروری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی مذکور میں وضاحت ہے۔