سنن النسائي - حدیث 3092

كِتَابُ الْجِهَادِ وُجُوبِ الْجِهَادِ صحيح متواتر أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3092

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جہاد فرض ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی لڑوں حتیٰ کہ وہ لاَ اِلَہَ أِلاَّاللّٰہ پڑھ لیں۔ جس آدمی نے لاَ اِلَہَ أِلاَّاللّٰہ پڑھ لیا‘ اس نے مجھ سے اپنی جان ومال کو محفوظ کرلیا۔ الا یہ کہ اس کے ذمے کسی کا حق واجب الادا ہو۔ باقی رہا اس کا حقیقی حساب تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔
تشریح : (۱) ’’حتیٰ کہ‘‘ یعنی کسی کے کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس سے لڑائی جائز نہیں۔ ہم ظاہر کو دیکھیں گے۔ باقی ہا کہ وہ کس نیت سے کلمہ پڑھ رہا ہے تو یہ حساب اللہ کے ذمے ہے۔ ہمیں اس میں پڑنے کی ـضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کام اس کے لیے ہی چھو ڑ دیے جائیں۔ دخل اندازی مناسب نہیں۔(۲) ’’کسی کا حق‘‘ اسلام کسی سابقہ حق کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ اسلام لانے سے سابقہ حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں مگر حقوق العباد کی ادائیگی لازم رہتی ہے۔ (۳)اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک کوئی شخص مسلمان نہ ہو‘ اس سے لڑائی جاری رکھی جائے یا اسے قتل کردیا جائے اور اس کا مال لوٹ لیہا جائے‘ کیونکہ یہ مفہوم رسول اللہﷺ کی تیئیس سالہ زندگی نبوت کے طرز عمل کے بالکل خلاف ہے۔ اسلامی مملکت میں ذمیوں کا وجود متفقہ چیز ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں بھی اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی۔ اس کا انکار ممکن نہیں‘ لہٰذا اس حدیث سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں۔ پھر انہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے او روہ کلمئہ اسلام پڑھ لیں۔ (۱) ’’حتیٰ کہ‘‘ یعنی کسی کے کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس سے لڑائی جائز نہیں۔ ہم ظاہر کو دیکھیں گے۔ باقی ہا کہ وہ کس نیت سے کلمہ پڑھ رہا ہے تو یہ حساب اللہ کے ذمے ہے۔ ہمیں اس میں پڑنے کی ـضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کام اس کے لیے ہی چھو ڑ دیے جائیں۔ دخل اندازی مناسب نہیں۔(۲) ’’کسی کا حق‘‘ اسلام کسی سابقہ حق کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ اسلام لانے سے سابقہ حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں مگر حقوق العباد کی ادائیگی لازم رہتی ہے۔ (۳)اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک کوئی شخص مسلمان نہ ہو‘ اس سے لڑائی جاری رکھی جائے یا اسے قتل کردیا جائے اور اس کا مال لوٹ لیہا جائے‘ کیونکہ یہ مفہوم رسول اللہﷺ کی تیئیس سالہ زندگی نبوت کے طرز عمل کے بالکل خلاف ہے۔ اسلامی مملکت میں ذمیوں کا وجود متفقہ چیز ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں بھی اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی۔ اس کا انکار ممکن نہیں‘ لہٰذا اس حدیث سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں۔ پھر انہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے او روہ کلمئہ اسلام پڑھ لیں۔