كِتَابُ الْجِهَادِ وُجُوبِ الْجِهَادِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبِي قَالَ أَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَأَصْحَابًا لَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي عِزٍّ وَنَحْنُ مُشْرِكُونَ فَلَمَّا آمَنَّا صِرْنَا أَذِلَّةً فَقَالَ إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا فَلَمَّا حَوَّلَنَا اللَّهُ إِلَى الْمَدِينَةِ أَمَرَنَا بِالْقِتَالِ فَكَفُّوا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ(النساء:77)
کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
جہاد فرض ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے کچھ ساتھی مکہ مکرمہ میں نبیﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم کافر مشرک تھے تو عزت والے تھے‘ جب ہم مسلمان ہوئے تو ذلیل ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: ’’(فی الحال) مجھے معاف اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ لہٰذا تم لڑائی نہ کرو۔‘‘ پھر جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں لڑنے کا حکم دیا‘ لیکن بعض مسلمان لڑائی سے رکے رہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: {اَلَمْ تَرَالِیَ الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوالصَّلٰوۃ} ’’(اے نبی!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ تم اپنے ہاتھ (لڑائی سے) روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔‘‘
تشریح :
: ’’ذلیل ہوگئے‘‘ یعنی ہم کفر کی حالت میں تو ظلم کا بدلہ لے لیا کرتے تھے۔ اب ہمیں ظلم کے سامنے ہاتھ اٹھانے اور ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ اور ظاہراً یہ ذلالت والی حالت ہے کہ انسان دوسروں کے لیے تختئہ مشق بنا رہے‘ لیکن شریعت کا یہ حکم ایک عظیم مصلحت کی بنا پر تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو مزاحمت یا جوابی جارحیت کی اجازت دی جاتی تو اسلام کی نوزائیدہ تحریک اور اس کے قیمتی کارکن ختم ہوجاتے جب کہ صبروعفو کا حکم دے کر ان کی قوت برداشت کو انتہائی حد تک بڑھادیا گیا اور وہ آئندہ دور میں جنگوں کی سختی کو حیران کن حد تک برداشت کرنے کے قابل بن گئے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی درجئہ کمال کو پہنچ گئی۔
: ’’ذلیل ہوگئے‘‘ یعنی ہم کفر کی حالت میں تو ظلم کا بدلہ لے لیا کرتے تھے۔ اب ہمیں ظلم کے سامنے ہاتھ اٹھانے اور ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ اور ظاہراً یہ ذلالت والی حالت ہے کہ انسان دوسروں کے لیے تختئہ مشق بنا رہے‘ لیکن شریعت کا یہ حکم ایک عظیم مصلحت کی بنا پر تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو مزاحمت یا جوابی جارحیت کی اجازت دی جاتی تو اسلام کی نوزائیدہ تحریک اور اس کے قیمتی کارکن ختم ہوجاتے جب کہ صبروعفو کا حکم دے کر ان کی قوت برداشت کو انتہائی حد تک بڑھادیا گیا اور وہ آئندہ دور میں جنگوں کی سختی کو حیران کن حد تک برداشت کرنے کے قابل بن گئے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی درجئہ کمال کو پہنچ گئی۔