سنن النسائي - حدیث 3087

كِتَابُ الْجِهَادِ وُجُوبِ الْجِهَادِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ الْأَزْرَقُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ لَيَهْلِكُنَّ فَنَزَلَتْ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَكُونُ قِتَالٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَهِيَ أَوَّلُ آيَةٍ نَزَلَتْ فِي الْقِتَالِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3087

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل جہاد فرض ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان لوگوں (مشرکین مکہ) نے اپنے نبی کو نکال دیا: اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اب یہ لوگ ضرور تباہ وبرباد ہوں گے‘ پھر یہ آیت اتری: {اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ…… عَلیٰ نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ} ’’جن لوگوں سے بلاوجہ لڑائی کی جاتی ہے‘ انہیں بھی لڑنے (جہاد) کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے یقین ہوگیا کہ اب عنقریب کافر وں سے لڑائی ہوگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لڑائی کے (جوازکے) بارے میں یہ سب سے پہلی آیت تھی جو اتری۔
تشریح : (۱) جہاد اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے مگر یہ دیگر ارکان ا سلام سے بعض شرائط میں مختلف ہے: * اکارن خمسہ، یعنی توحید ورسالت کی گواہی، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج فرض عین ہیں مگر جہاد عام حالات میں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ * ارکان خمسہ انفرادی عبادات ہیں جب کہ جہاد حکومت کے فرائض میںشامل ہیں۔* جہاد ضرورت کے مطابق ہے۔ ضرورت نہ پڑے تو جہاد بھی نہیں ہوگا جب کہ دیگر عبادات ضرورت پر موقف نہیں۔ مکی زندگی میں چونکہ مسلمان کمزور بھی تھے اور تعداد میں بھی بہت تھوڑے تھے‘ لہٰذا جہاد میں نہیںہوا۔ مدینہ منورہ میں بھی جب ضـرورت پڑی‘ جہاد کیا گیا جیسے جنگ بدر‘ احد اور خندق کے واقعات ہیں۔ یا جب کفار کی شرانگیزی حد سے بڑھ گئی اور اسلامی مملکت کے لیے ناقابل برداشت بن گئی بلکہ اسلامی مملکت کے لیے خطرہ بن گئی تو حملہ کیا گیا جیسے خیبر اور فتح مکہ کے واقعات ہیں‘ البتہ اگر کفار امن سے رہیں‘ مسلمانوں پر جنگ مسلط نہ کریں اور نہ ان کی مملکت کے خلاف تباہ کن سازشیں کریں تو ان سے لڑائی نہیں لڑی جائے گی بلکہ ان سے معاہدہ کرکے صلح رکھی جائے گی جیسے یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ اور قریش کے ساتھ صلح جیدبیہ ہوئی۔* جہاد کے لیے ہر شخص کا نکلنا ـضروری نہیں بلکہ امیر جن لوگوں کی ضرورت سمجھے‘ ان پر جانا فرض ہوگا۔ اور حکومت نے شعبئہ فوج الگ سے قائم کررکھا ہے تو انہی پر جہاد فرض ہے۔ دوسرے لوگ اپنے اپنے کام کریں تاکہ معیشت کی گاڑ؁ بھی چلتی رہے‘ تاہم امیر حسب ضرورت وحالات سب لوگوں کو نکلنے کا لازمی حکم دے سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں غزوئہ تبوک کے موقع پر ہوا۔* یہ سمجھنا کہ جہاد سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا، جہاد کے معنی سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا ہے‘ جہاد کے معنی میں تحریف ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے خلاف ہے اور قرآن مجید سے غلط استدلال ہے۔(۲) نبی کا کسی قوم سے نکل جانا اس قوم کی بدنصیبی اور اس کے لیے ہلاکت کا پیغام ہے‘ جب کہ نبی کا وجود رحمتِ الٰہی ہے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب تک کوئی نبی اپنی قوم میں رہا‘ عذاب نہیں آیا‘ خواہ کفر کتنا ہی عام تھا۔ (۱) جہاد اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے مگر یہ دیگر ارکان ا سلام سے بعض شرائط میں مختلف ہے: * اکارن خمسہ، یعنی توحید ورسالت کی گواہی، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج فرض عین ہیں مگر جہاد عام حالات میں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ * ارکان خمسہ انفرادی عبادات ہیں جب کہ جہاد حکومت کے فرائض میںشامل ہیں۔* جہاد ضرورت کے مطابق ہے۔ ضرورت نہ پڑے تو جہاد بھی نہیں ہوگا جب کہ دیگر عبادات ضرورت پر موقف نہیں۔ مکی زندگی میں چونکہ مسلمان کمزور بھی تھے اور تعداد میں بھی بہت تھوڑے تھے‘ لہٰذا جہاد میں نہیںہوا۔ مدینہ منورہ میں بھی جب ضـرورت پڑی‘ جہاد کیا گیا جیسے جنگ بدر‘ احد اور خندق کے واقعات ہیں۔ یا جب کفار کی شرانگیزی حد سے بڑھ گئی اور اسلامی مملکت کے لیے ناقابل برداشت بن گئی بلکہ اسلامی مملکت کے لیے خطرہ بن گئی تو حملہ کیا گیا جیسے خیبر اور فتح مکہ کے واقعات ہیں‘ البتہ اگر کفار امن سے رہیں‘ مسلمانوں پر جنگ مسلط نہ کریں اور نہ ان کی مملکت کے خلاف تباہ کن سازشیں کریں تو ان سے لڑائی نہیں لڑی جائے گی بلکہ ان سے معاہدہ کرکے صلح رکھی جائے گی جیسے یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ اور قریش کے ساتھ صلح جیدبیہ ہوئی۔* جہاد کے لیے ہر شخص کا نکلنا ـضروری نہیں بلکہ امیر جن لوگوں کی ضرورت سمجھے‘ ان پر جانا فرض ہوگا۔ اور حکومت نے شعبئہ فوج الگ سے قائم کررکھا ہے تو انہی پر جہاد فرض ہے۔ دوسرے لوگ اپنے اپنے کام کریں تاکہ معیشت کی گاڑ؁ بھی چلتی رہے‘ تاہم امیر حسب ضرورت وحالات سب لوگوں کو نکلنے کا لازمی حکم دے سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں غزوئہ تبوک کے موقع پر ہوا۔* یہ سمجھنا کہ جہاد سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا، جہاد کے معنی سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا ہے‘ جہاد کے معنی میں تحریف ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے خلاف ہے اور قرآن مجید سے غلط استدلال ہے۔(۲) نبی کا کسی قوم سے نکل جانا اس قوم کی بدنصیبی اور اس کے لیے ہلاکت کا پیغام ہے‘ جب کہ نبی کا وجود رحمتِ الٰہی ہے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب تک کوئی نبی اپنی قوم میں رہا‘ عذاب نہیں آیا‘ خواہ کفر کتنا ہی عام تھا۔