سنن النسائي - حدیث 3080

الْمَوَاقِيتِ بَاب عَدَدِ الْحَصَى الَّتِي يَرْمِي بِهَا الْجِمَارَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ يَقُولُ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجِمَارِ فَقَالَ مَا أَدْرِي رَمَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسِتٍّ أَوْ بِسَبْعٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3080

کتاب: مواقیت کا بیان جمروں کو کتنی کتنی کنکریاں ماری جائیں گی؟ حضرت ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ میںنے حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ سے جمروں کے بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے: میں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے انھیں سات سات کنکریاں ماریں یا چھ چھ۔
تشریح : کنکریاں تو سات ہی ماری جاتی ہیں جیسا کہ احادیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر غلطی یا بھول چوک سے چھ کنکریاں ہی ماری جائیں یا رش وغیرہ کی بنا پر ایک آدھ کنکری رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ شریعت نے بہت سے مسائل میں اکثر کو کل کا حکم دیا ہے، البتہ جان بوجھ کر کمی بیشی جائز نہیں۔ کنکریاں تو سات ہی ماری جاتی ہیں جیسا کہ احادیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر غلطی یا بھول چوک سے چھ کنکریاں ہی ماری جائیں یا رش وغیرہ کی بنا پر ایک آدھ کنکری رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ شریعت نے بہت سے مسائل میں اکثر کو کل کا حکم دیا ہے، البتہ جان بوجھ کر کمی بیشی جائز نہیں۔