سنن النسائي - حدیث 307

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب بَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَدِمَ أَعْرَابٌ مِنْ عُرَيْنَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمُوا فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ حَتَّى اصْفَرَّتْ أَلْوَانُهُمْ وَعَظُمَتْ بُطُونُهُمْ فَبَعَثَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِقَاحٍ لَهُ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حَتَّى صَحُّوا فَقَتَلُوا رَاعِيَهَا وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِأَنَسٍ وَهُوَ يُحَدِّثُهُ هَذَا الْحَدِيثَ بِكُفْرٍ أَمْ بِذَنْبٍ قَالَ بِكُفْرٍ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَنَسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ طَلْحَةَ وَالصَّوَابُ عِنْدِي وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ يَحْيَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ مُرْسَلٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 307

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہےاس کے پیشاب کا حکم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرینہ قبیلے کے کچھ بدوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مسلمان ہوگئے لیکن انھوں نے مدینے کی آب و ہوا کو ناموافق پایا حی کہ ان کے رنگ زرد ہوگئے اور ان کے پیٹ بڑھ گئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی دودھ والی اونینوں میں بھیج دیا اور ان سے فرمایا: ’’ان کا دودھ اور ان کا پیشاب پئیں۔‘‘ حی کہ وہ تندرست ہو گئے تو انھوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پکڑنے کے لیے آدمی بھیجے۔ وہ (پکڑ کر) لائے گئے تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں۔ امیر المومنین عبدالملک نے حضرت انس رضی اللہ سے پوچھا جب کہ وہ انھیں حدیث بیان کر رہے تھے، (ان کی یہ سزا) کفر کی وجہ سے تھی یا گناہ کی وجہ سے؟ انھوں نے کہا: کفر کی وجہ سے۔ امام ابو عبدالرحمٰن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ طلحہ کے علاوہ کسی راوی نے اس حدیث میں عن یحیی عن انس کہا ہو۔ میرے نزدیک صحیح سند یوں ہے: یحی (بنن سعید) عن سعید بن المسیب۔ گویا یہ حدیث مرسل ہے۔ (اس میں حضرت انس کا ذکر نہیں ہونا چاہیے۔) واللہ أعلم۔
تشریح : (۱) ’دگویا یہ حدیث مرسل ہے۔‘‘ مرسل روایت وہ ہوتی ہے جس میں تابعی یوں کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا، ایسے کیا۔ (۲) ’’کفر کی وجہ سے‘‘ دراصل ان کے کئی جرم تھے۔ کفر، قتل، ڈاکا، درندگی۔ ہر جرم کی سزا ضروری تھی، چونکہ کفر سب سے بڑا جرم ہے، اس لیے صرف اس کا ذکر کیا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، ورنہ صرف کفر کی بنا پر اس طرح قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے یہ سلوک انکے مجموعی جرائم کی بنا پر کیا گیا جن میں کفر بھی شامل ہے۔ (۳) یہ لوگ دو قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ عکل اور عرینہ۔ پہلی روایت میں عکل کا ذکر ہے اور اس میں عرینہ کا۔ یہ کوئی اختلاف نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۴۳۸/۱، ۴۳۹، تحت حدیث: ۲۳۳) (۱) ’دگویا یہ حدیث مرسل ہے۔‘‘ مرسل روایت وہ ہوتی ہے جس میں تابعی یوں کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا، ایسے کیا۔ (۲) ’’کفر کی وجہ سے‘‘ دراصل ان کے کئی جرم تھے۔ کفر، قتل، ڈاکا، درندگی۔ ہر جرم کی سزا ضروری تھی، چونکہ کفر سب سے بڑا جرم ہے، اس لیے صرف اس کا ذکر کیا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، ورنہ صرف کفر کی بنا پر اس طرح قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے یہ سلوک انکے مجموعی جرائم کی بنا پر کیا گیا جن میں کفر بھی شامل ہے۔ (۳) یہ لوگ دو قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ عکل اور عرینہ۔ پہلی روایت میں عکل کا ذکر ہے اور اس میں عرینہ کا۔ یہ کوئی اختلاف نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۴۳۸/۱، ۴۳۹، تحت حدیث: ۲۳۳)