الْمَوَاقِيتِ بَابُ الرَّمْيِ بَعْدَ الْمَسَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ أَيَّامَ مِنًى فَيَقُولُ لَا حَرَجَ فَسَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ قَالَ لَا حَرَجَ فَقَالَ رَجُلٌ رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ قَالَ لَا حَرَجَ
کتاب: مواقیت کا بیان
شام کے بعد رمی کرنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سے منیٰ کے دنوں میں مختلف سوالات کیے جاتے تھے تو آپ فرماتے تھے: ’’کوی حرج نہیں۔‘‘ چنانچہ ایک آدمی نے پوچھا: میں نے قربانی ذبح کرنے سے قبل سر منڈا لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘
تشریح :
(۱) رمی کا وقت تو دن ہے مگر دن میں رمی نہ ہو سکے تو رات کو کرنی پڑے گی، لیکن ایسا کسی مجبوری ہی کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ یوم نحر کو چار کام بالترتیب کیے جاتے ہیں: رمی، قربانی، حجامت اور طواف وداع، البتہ اگر ترتیب میں فرق پڑ جائے تو اس روایت کی رو سے کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ترتیب سنت ہے، فرض نہیں۔ اگرچہ جہالت یا غلطی ہے سے ترتیب قائم نہ رہے تو وہ معذور ہے۔ اس پر کوئی تاوان نہیں۔ بعض فقہاء نے اس روایت کو گناہ کی نفی پر محمول کیا ہے اور بے ترتیبی کی صورت میں وہ جانور ذبح کرنے کے قائل ہیں، مگر کسی مرفوع روایت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ جمہور اہل علم کسی تاوان کے قائل نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر قارن یا متمتع قربانی ذبح کرنے سے قبل حجامت بنوالے تو اسے بطور سزا جانور ذبح کرنا ہوگا۔ {وَ لَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ} (البقرۃ۲: ۱۹۶) لیکن اس سے مراد تو یہ ہے کہ عمداً ایسے نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ وَ لَا تَحْلِقُوْا سے اشارہ ملتا ہے۔ وگرنہ سہواً یا لا علمی کی وجہ سے ایسے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جس طرح کہ رسول اللہﷺ کے فرمان عالی سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ شارع ہیں اور قرآن کی غرض کی یقینا جانتے تھے۔ (۲) نبی اکرمﷺ نے کما حقہ دین کے احکام پہنچائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قدر اہتمام اور لگن سے سیکھے کہ سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔
(۱) رمی کا وقت تو دن ہے مگر دن میں رمی نہ ہو سکے تو رات کو کرنی پڑے گی، لیکن ایسا کسی مجبوری ہی کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ یوم نحر کو چار کام بالترتیب کیے جاتے ہیں: رمی، قربانی، حجامت اور طواف وداع، البتہ اگر ترتیب میں فرق پڑ جائے تو اس روایت کی رو سے کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ترتیب سنت ہے، فرض نہیں۔ اگرچہ جہالت یا غلطی ہے سے ترتیب قائم نہ رہے تو وہ معذور ہے۔ اس پر کوئی تاوان نہیں۔ بعض فقہاء نے اس روایت کو گناہ کی نفی پر محمول کیا ہے اور بے ترتیبی کی صورت میں وہ جانور ذبح کرنے کے قائل ہیں، مگر کسی مرفوع روایت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ جمہور اہل علم کسی تاوان کے قائل نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر قارن یا متمتع قربانی ذبح کرنے سے قبل حجامت بنوالے تو اسے بطور سزا جانور ذبح کرنا ہوگا۔ {وَ لَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ} (البقرۃ۲: ۱۹۶) لیکن اس سے مراد تو یہ ہے کہ عمداً ایسے نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ وَ لَا تَحْلِقُوْا سے اشارہ ملتا ہے۔ وگرنہ سہواً یا لا علمی کی وجہ سے ایسے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جس طرح کہ رسول اللہﷺ کے فرمان عالی سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ شارع ہیں اور قرآن کی غرض کی یقینا جانتے تھے۔ (۲) نبی اکرمﷺ نے کما حقہ دین کے احکام پہنچائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قدر اہتمام اور لگن سے سیکھے کہ سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔