الْمَوَاقِيتِ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ لِلنِّسَاءِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ عَنْ خَالَتِهَا عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ إِحْدَى نِسَائِهِ أَنْ تَنْفِرَ مِنْ جَمْعٍ لَيْلَةَ جَمْعٍ فَتَأْتِيَ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَتَرْمِيَهَا وَتُصْبِحَ فِي مَنْزِلِهَا وَكَانَ عَطَاءٌ يَفْعَلُهُ حَتَّى مَاتَ
کتاب: مواقیت کا بیان
اس مسئلے (طلوع شمس سے قبل رمی کرنے)میں عورتوں کو رخصت ہے
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہ کو اجازت دی تھی کہ وہ مزدلفہ سے رات ہی کو چلی جائے اور جا کر جمرۂ عقبہ کو رمی کرے اور صبح کے وقت اپنے (منیٰ والے) خیمے میں پہنچ جائے۔ راوی حدیث حضرت عطاء بھی اپنی وفات تک اسی طرح کرتے رہے۔
تشریح :
امام نسائی رحمہ اللہ مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ بہت سی روایات میں صراحتاً حکم ہے کہ طلوع شمس سے قبل رمی نہ کی جائے اس روایت میں آپ نے اجازت دی ہے۔ گویا عورتوں کو طلوع شمس سے قبل رمی کی اجازت ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ بعض نے صرف آپ کی زوجہ محترمہ کے لیے خصوصی اجازت کا قول ذکر کیا ہے۔ جو علماء طلوع شمس سے قبل بھی رمی کے قائل ہیں ان کی مضبوط ترین ایک دلیل حضرت اسمائؓ کی حدیث بھی ہے، جس میں ان کے چاند غروب ہونے کے بعد جلد نکلنے کا ذکر ہے۔ نماز فجر سے قبل انھوں نے رمی کی اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ (صحیح البخاری، الحج، حدیث: ۱۶۷۹) لیکن بعض محققین کے نزدیک یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ یہ عمل ان کی ذاتی رائے یا اجتہاد کے پیش نظر تھا۔ حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ رمی بھی رسول اللہﷺ کی اجازت ہی سے کی گئی تھی، لہٰذا رسول اللہﷺ کا طلوع شمس سے قبل ہر کسی کو رمی کرنے سے روکنا، پھر یہ کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ نے رمی طلوع شمس کے بعد ہی کی، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رمی طلوع شمس کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک بجائے ترجیح کے تطبیق زیادہ مناسب ہے۔ ان کے نزدیک طلوع شمس کے بعد رمی، مستحب اور اس سے قبل جائز ہے۔ وہ حدیث میں وارد نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری: ۳/ ۵۲۸، ۵۲۹، وذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۶/ ۴۱-۴۵)
امام نسائی رحمہ اللہ مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ بہت سی روایات میں صراحتاً حکم ہے کہ طلوع شمس سے قبل رمی نہ کی جائے اس روایت میں آپ نے اجازت دی ہے۔ گویا عورتوں کو طلوع شمس سے قبل رمی کی اجازت ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ بعض نے صرف آپ کی زوجہ محترمہ کے لیے خصوصی اجازت کا قول ذکر کیا ہے۔ جو علماء طلوع شمس سے قبل بھی رمی کے قائل ہیں ان کی مضبوط ترین ایک دلیل حضرت اسمائؓ کی حدیث بھی ہے، جس میں ان کے چاند غروب ہونے کے بعد جلد نکلنے کا ذکر ہے۔ نماز فجر سے قبل انھوں نے رمی کی اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ (صحیح البخاری، الحج، حدیث: ۱۶۷۹) لیکن بعض محققین کے نزدیک یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ یہ عمل ان کی ذاتی رائے یا اجتہاد کے پیش نظر تھا۔ حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ رمی بھی رسول اللہﷺ کی اجازت ہی سے کی گئی تھی، لہٰذا رسول اللہﷺ کا طلوع شمس سے قبل ہر کسی کو رمی کرنے سے روکنا، پھر یہ کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ نے رمی طلوع شمس کے بعد ہی کی، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رمی طلوع شمس کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک بجائے ترجیح کے تطبیق زیادہ مناسب ہے۔ ان کے نزدیک طلوع شمس کے بعد رمی، مستحب اور اس سے قبل جائز ہے۔ وہ حدیث میں وارد نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری: ۳/ ۵۲۸، ۵۲۹، وذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۶/ ۴۱-۴۵)