ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب بَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ أُنَاسًا أَوْ رِجَالًا مِنْ عُكْلٍ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أَهْلُ ضَرْعٍ وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهَا فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَلَمَّا صَحُّوا وَكَانُوا بِنَاحِيَةِ الْحَرَّةِ كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَقَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ فَسَمَرُوا أَعْيُنَهُمْ وَقَطَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ ثُمَّ تُرِكُوا فِي الْحَرَّةِ عَلَى حَالِهِمْ حَتَّى مَاتُوا
کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہےاس کے پیشاب کا حکم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عکل قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کلمۂ اسلام پڑھا، پھر وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم اونٹوں والے لوگ ہیں، کھیتی والے نہیں اور انھوں نے مدینے کی آب و ہوا کو ناموافق پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اونٹوں اور چرواہے کا حکم دیا اور انھیں حکم دیا کہ انم یں چلے جائیں اور ان کے دودھ اور پیشاب پئیں۔ پھر جب وہ تندرست ہوگئے اور وہ حرہ کے ایک کنارے میں رہ رہے تھے۔ وہ اسلام لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے تلاش کرنے والے بھیجے۔ آخر کار انھیں پکڑ کر لایا گیا تو مسلمانوں نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے، پھر انھیں اسی زخمی حالت میں حرہ میں چھوڑ دیا گیا حتی کہ وہ (تڑپتے تڑپتے) مرگئے۔
تشریح :
(۱) چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انھیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہوگئی۔ (۲) ’’اونٹوں کے پیشاب پیو۔‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیرمسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے ےپاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔ (۳) جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے۔ وہ اس حدیث کو صرف انھی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنھیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماً شفا ہوگی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔ (۴) ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انھیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انھیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انھیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: (کتب علیکم القصاص فی القتلی) (البقرۃ ۱۷۸:۲) ’’تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے ےمقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: [لاقود الا بالسیف] (سنن ابن ماجہ، الدیات، حدیث: ۲۶۶۸) یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
(۱) چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انھیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہوگئی۔ (۲) ’’اونٹوں کے پیشاب پیو۔‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیرمسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے ےپاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔ (۳) جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے۔ وہ اس حدیث کو صرف انھی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنھیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماً شفا ہوگی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔ (۴) ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انھیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انھیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انھیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: (کتب علیکم القصاص فی القتلی) (البقرۃ ۱۷۸:۲) ’’تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے ےمقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: [لاقود الا بالسیف] (سنن ابن ماجہ، الدیات، حدیث: ۲۶۶۸) یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔