سنن النسائي - حدیث 3058

الْمَوَاقِيتِ بَابُ التَّلْبِيَةِ فِي السَّيْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّى حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3058

کتاب: مواقیت کا بیان (مزدلفہ سے منیٰ کو)چلتے وفت لبیک کہنا جمہور اہل علم کے قول کے مطابق جمرہ عقبہ کی رمی تک لبیک کہنا چاہیے، یعنی پہلی کنکری کے ساتھ ہی لبیک روک دیا جائے اور تکبیر شروع کر دی جائے۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ امام احمد اور بعض اصحاب شافعی رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ رمی مکمل ہونے تک تلبیہ پکارا جائے، جو نہی آخری کنکری ماری جائے، تلبیہ بند کر دیا جائے۔ ازروئے دلیل یہی موقف راجح ہے۔ جمہور کی دلیل میں ابہام ہے، جبکہ مؤخر الذکر موقف کے حاملین کی دلیل صریح اور دو ٹوک ہے۔ ابن خزیمہ میں بواسطہ ابن عباس فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: [اَفَضْتُ مَعَ النَّبِیَّﷺ مِنْ عَرَفَاتٍ، فَلَمْ یَزَلْ یُلَبِّی حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ یُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃٍ ثُمَّ قَطَعَ التَّلْبِیَۃَ مَعَ آخِرِ حَصَاۃٍ] ’’میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہی عرفات سے واپس لوٹا، آپ بدستور، جمرہ عقبہ کی رمی تک، تلبیہ پکارتے رہے، آپ ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے، پھر آپﷺ نے آخری کنکری کے ساتھ تلبیہ موقوف کر دیا ہے۔‘‘ اس کے بعد امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور دیگر مبہم روایات کی تفسیر کرتی ہے اور آپﷺ کے قول ’’حَتّٰی رَمٰی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہاں تک کہ آپ نے رمی کی تکمیل فرما لی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباری: ۳/ ۵۳۳) بہرحال آخری کنکری مارنے تک تلبیہ کہنے کی ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کنکری کے ساتھ تکبیر کہہ کر ساتھ تلبیہ بھی پکار لیا جائے۔ اگر صرف تکبیر ہی پر اکتفا کیا جائے اور اس وقت تلبیہ نہ بھی کہا جائے تو جائز ہے۔ واللہ اعلم