سنن النسائي - حدیث 3050

الْمَوَاقِيتِ بَابُ: وَقْتِ الْإِفَاضَةِ مِنْ جَمْعٍ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ شَهِدْتُ عُمَرَ بِجَمْعٍ فَقَالَ إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَيَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3050

کتاب: مواقیت کا بیان مزدلفہ سے (منیٰ کی طرف)واپسی کا وقت حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مزدلفہ میں فرما رہے تھے: جاہلیت والے سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے نہیں چلتے تھے بلکہ کہتے تھے: اے ثبیر! روشن ہو۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کی مخالفت فرمائی، پھر وہ طلوع شمس سے پہلے ہی چل پڑے۔
تشریح : ’’اے ثبیر! روشن ہو‘‘ ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدفلہ کی حدود ہی میں واقع ہے۔ ظاہر ہے سورج طلوع ہو تو اس کی روشنی سب سے پہلے پہاڑ ہی پر پڑتی ہے۔ پہاڑ کی روشن ہونے سے سورج کے طلوع ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ اہل جاہلیت کا مقصد یہ تھا کہ پہاڑ روشن ہوگا، یعنی سور ج طوع ہوگا تو پھر چلیں گے جبکہ رسول اللہﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے چل پڑے اور یہی سنت ہے اگرچہ مزدلفہ میں سورج طلوع ہونے سے حج کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ رش میں ایسا ممکن ہے۔ ’’اے ثبیر! روشن ہو‘‘ ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدفلہ کی حدود ہی میں واقع ہے۔ ظاہر ہے سورج طلوع ہو تو اس کی روشنی سب سے پہلے پہاڑ ہی پر پڑتی ہے۔ پہاڑ کی روشن ہونے سے سورج کے طلوع ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ اہل جاہلیت کا مقصد یہ تھا کہ پہاڑ روشن ہوگا، یعنی سور ج طوع ہوگا تو پھر چلیں گے جبکہ رسول اللہﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے چل پڑے اور یہی سنت ہے اگرچہ مزدلفہ میں سورج طلوع ہونے سے حج کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ رش میں ایسا ممکن ہے۔