سنن النسائي - حدیث 3036

الْمَوَاقِيتِ تَقْدِيمُ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِلَى مَنَازِلِهِمْ بِمُزْدَلِفَةَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ فِيمَنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ فِي ضَعَفَةِ أَهْلِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3036

کتاب: مواقیت کا بیان مزدلفہ سے عورتوں اور بچوں کو صبح سے پہلے ہی ان کی منیٰ والی قیام گاہوں میں بھیج دینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنھیں نبیﷺ نے مزدلفہ کی رات اپنے کمزوروں، یعنی عورتوں اور بچوں میں پہلے ہی بھیج دیا تھا۔
تشریح : (۱) صاحب ذخیرۃ العقبیٰ لکھتے ہیں کہ اکثر نسخوں میں ترجمۃ الباب ایسے ہی ہے لیکن یہ درست نہیں، صحیح ترجمۃ الباب یہ ہے: [تَقْدِیْمُ النِّسَائِ وَالصِّبِیَانِ اِلٰی مِنٰی مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ] امام نسائی رحمہ اللہ کی سنن کبریٰ میں اس طرح ہے۔ اس کا مفہوم درج ذیل ہے: ’’مزدلفہ سے منیٰ کی طرف عورتوں اور بچوں کو روانہ کر دینا۔‘‘ ملاحظہ فرمائیے: (شرح النسائی للاتیوبی: ۲۵/ ۳۹۱) (۳) مزدلفہ سے منیٰ کو روانگی صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ ذکر اذکار کر کے سورج طلوع ہونے سے کچھ قبل ہونی چاہیے مگر ضعیف عورتیں اور بچے چونکہ رش میں تکلیف محسوس کریں گے، اس لیے انھیں طلوع فجر سے پہلے آدھی رات کے بعد کسی وقت بھی بھیجا جا سکتا ہے مگر وہ رمی سورج طلوع ہونے کے بعد ہی کریں گے، البتہ باقی لوگوں سے پہلے کر لیں گے۔ (۳) دین کے معاملات میں ہر ایک کو اس کی بساط کے مطابق مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ دینی اعمال سے مقصود لوگوں کو مشقت وتکلیف میں مبتلا کرنا نہیں بلکہ اطاعت وفرمانبرداری ہے۔ اور وہ ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق بجا لائے گا۔ شریعت نے معذورین کے اعذار کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ شریعت محمدیہ کا امتیاز ہے۔ وللہ الحمد (۱) صاحب ذخیرۃ العقبیٰ لکھتے ہیں کہ اکثر نسخوں میں ترجمۃ الباب ایسے ہی ہے لیکن یہ درست نہیں، صحیح ترجمۃ الباب یہ ہے: [تَقْدِیْمُ النِّسَائِ وَالصِّبِیَانِ اِلٰی مِنٰی مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ] امام نسائی رحمہ اللہ کی سنن کبریٰ میں اس طرح ہے۔ اس کا مفہوم درج ذیل ہے: ’’مزدلفہ سے منیٰ کی طرف عورتوں اور بچوں کو روانہ کر دینا۔‘‘ ملاحظہ فرمائیے: (شرح النسائی للاتیوبی: ۲۵/ ۳۹۱) (۳) مزدلفہ سے منیٰ کو روانگی صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ ذکر اذکار کر کے سورج طلوع ہونے سے کچھ قبل ہونی چاہیے مگر ضعیف عورتیں اور بچے چونکہ رش میں تکلیف محسوس کریں گے، اس لیے انھیں طلوع فجر سے پہلے آدھی رات کے بعد کسی وقت بھی بھیجا جا سکتا ہے مگر وہ رمی سورج طلوع ہونے کے بعد ہی کریں گے، البتہ باقی لوگوں سے پہلے کر لیں گے۔ (۳) دین کے معاملات میں ہر ایک کو اس کی بساط کے مطابق مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ دینی اعمال سے مقصود لوگوں کو مشقت وتکلیف میں مبتلا کرنا نہیں بلکہ اطاعت وفرمانبرداری ہے۔ اور وہ ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق بجا لائے گا۔ شریعت نے معذورین کے اعذار کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ شریعت محمدیہ کا امتیاز ہے۔ وللہ الحمد