سنن النسائي - حدیث 3015

الْمَوَاقِيتِ رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ بِعَرَفَةَ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَتْ قُرَيْشٌ تَقِفُ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَيُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ وَسَائِرُ الْعَرَبِ تَقِفُ بِعَرَفَةَ فَأَمَرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقِفَ بِعَرَفَةَ ثُمَّ يَدْفَعُ مِنْهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3015

کتاب: مواقیت کا بیان عرفات میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو حمس کہتے تھے۔ اور باقی عرب عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ آپ عرفے میں ٹھہریں، پھر وہاں سے واپس لوٹیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: {ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ} ’’تم بھی وہاں سے لوٹا کرو جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں۔‘‘
تشریح : قریش اپنے آپ کو باقی عرب سے ممتاز سمجھتے تھے کیونکہ وہ کعبے کے متولی تھے۔ کعبہ کو حمساء بھی کہا جاتا تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو اس مناسبت سے حمس کہتے تھے، یعنی ہم کعبہ والے ہیں، لہٰذا ہم حج کے دوران میں حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ عرفات حرم سے باہر واقع ہے اور مزدلفہ حرم کے اندر، اس لیے وہ مزدلفہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے۔ باقی حاجی عرفات جاتے اور وہاں سے وقوف کے بعد واپس لوٹتے۔ اسلام آیا تو اس نے مساوات کا حکم دیا کہ حج میں سب برابر ہیں۔ قریش اپنے آپ کو باقی عرب سے ممتاز سمجھتے تھے کیونکہ وہ کعبے کے متولی تھے۔ کعبہ کو حمساء بھی کہا جاتا تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو اس مناسبت سے حمس کہتے تھے، یعنی ہم کعبہ والے ہیں، لہٰذا ہم حج کے دوران میں حرم سے باہر نہیں جائیں گے۔ عرفات حرم سے باہر واقع ہے اور مزدلفہ حرم کے اندر، اس لیے وہ مزدلفہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے۔ باقی حاجی عرفات جاتے اور وہاں سے وقوف کے بعد واپس لوٹتے۔ اسلام آیا تو اس نے مساوات کا حکم دیا کہ حج میں سب برابر ہیں۔