سنن النسائي - حدیث 3008

الْمَوَاقِيتِ الرَّوَاحُ يَوْمَ عَرَفَةَ صحيح أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ أَخْبَرَنِي أَشْهَبُ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَتَبَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ إِلَى الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ يَأْمُرُهُ أَنْ لَا يُخَالِفَ ابْنَ عُمَرَ فِي أَمْرِ الْحَجِّ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ جَاءَهُ ابْنُ عُمَرَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ وَأَنَا مَعَهُ فَصَاحَ عِنْدَ سُرَادِقِهِ أَيْنَ هَذَا فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْحَجَّاجُ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ فَقَالَ لَهُ مَا لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ الرَّوَاحَ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَقَالَ لَهُ هَذِهِ السَّاعَةَ فَقَالَ لَهُ نَعَمْ فَقَالَ أُفِيضُ عَلَيَّ مَاءً ثُمَّ أَخْرُجُ إِلَيْكَ فَانْتَظَرَهُ حَتَّى خَرَجَ فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي فَقُلْتُ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُصِيبَ السُّنَّةَ فَأَقْصِرْ الْخُطْبَةَ وَعَجِّلْ الْوُقُوفَ فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ كَيْمَا يَسْمَعَ ذَلِكَ مِنْهُ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ قَالَ صَدَقَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3008

کتاب: مواقیت کا بیان عرفے کے دن زوال کے فوری بعد جلدی عرفات پہچنا حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے (امیر حج) حجاج بن یوسف کو لکھا اور حکم دیا کہ حج کے مسائل میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہ کرے۔ جب عرفے کا دن ہوا تو سورج ڈھلنے کے وقت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حجاج کی طرف آئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ آپ نے اس کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: کدھر ہے وہ؟ حجاج باہر نکلا۔ اس نے ایک زرد رنگ میں رنگی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمن! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو (خطبے اور نماز کے لیے) چل۔ اس نے کہا: اس وقت؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: میں ذرا جسم پر پانی ڈال لوں، پھر میں آپ کے پاس آتا ہوں۔ آپ اس کا انتظار کرنے لگے حتی کہ وہ نکلا اور میرے اور میرے والد (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ) کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے کہا: اگر تم سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو خطبہ مختصر کرنا اور وقوف جلدی شروع کر دینا۔ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ان سے بھی اس کی تصدیق سن لے۔ جب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اس نے درست کہا ہے۔
تشریح : (۱) یہ اس سال کی بات ہے جس سال حجاج نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے مکے پر قبضہ کیا تھا۔ حج کے دن قریب تھے، لہٰذا خلیفہ وقت عبدالملک نے اسی کو امیر حج بنا دیا لیکن مسائل حج میں اسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پابند کر دیا۔ اور یہ چیز اسے ناگوار گزری۔ عبدالملک بہت عالم شخص تھا مگر حخومت نے اس کے علم کو دبا لیا۔ حجاج عبدالملک کا گورنر تھا مگر سخت ظالم اور صالحین کا بے ادب اور گستاخ۔ وہ بھی بڑا عالم تھا، مگر ان خرابیوں نے اسے قیامت تک کے لیے مسلمانوں اور صالحین میں بدنام اور مبغوض بنا دیا۔ اعاذنا اللہ منھا۔ (۲) ’’اس وقت؟‘‘ بنو امیہ کے اس دور کے گورنر ظہر کی نماز عموماً تاخیر سے پڑھتے تھے، اس لیے اسے تعجب ہوا کہ زوال کے ساتھ ہی خطبہ اور نماز شروع کر دیے جائیں۔ (۳) ’’ابوعبدالرحمن‘‘ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور کنیت تھی۔ عربوں میں محترم شخص کو اس کی کنیت سے پکارا جاتا تھا۔ (۴)خطبے کا مختصر ہونا عقل مندی ہے مگر یہ مطلب نہیں کہ نماز سے مختصر ہو بلہ عام خطبوں سے مختصر ہونا مراد ہے کیونکہ خطبے اور نماز کے بعد عرفے میں وقوف شروع ہوتا ہے جس میں مغرب تک اذکار، دعائیں اور استغفار ہوتے ہیں، لہٰذا خطبہ مختصر ہونے سے وقوف جلدی شروع ہوگا جو کہ مستحب ہے۔ (۵) حاکم وقت دین کے معاملے میں اہل علم کی رائے پر عمل کرے گا۔ (۶) شاگرد استاد کی موجودگی میں فتویٰ دے سکتا ہے۔ (۷) فاجر حاکم کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔ (۱) یہ اس سال کی بات ہے جس سال حجاج نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے مکے پر قبضہ کیا تھا۔ حج کے دن قریب تھے، لہٰذا خلیفہ وقت عبدالملک نے اسی کو امیر حج بنا دیا لیکن مسائل حج میں اسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پابند کر دیا۔ اور یہ چیز اسے ناگوار گزری۔ عبدالملک بہت عالم شخص تھا مگر حخومت نے اس کے علم کو دبا لیا۔ حجاج عبدالملک کا گورنر تھا مگر سخت ظالم اور صالحین کا بے ادب اور گستاخ۔ وہ بھی بڑا عالم تھا، مگر ان خرابیوں نے اسے قیامت تک کے لیے مسلمانوں اور صالحین میں بدنام اور مبغوض بنا دیا۔ اعاذنا اللہ منھا۔ (۲) ’’اس وقت؟‘‘ بنو امیہ کے اس دور کے گورنر ظہر کی نماز عموماً تاخیر سے پڑھتے تھے، اس لیے اسے تعجب ہوا کہ زوال کے ساتھ ہی خطبہ اور نماز شروع کر دیے جائیں۔ (۳) ’’ابوعبدالرحمن‘‘ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور کنیت تھی۔ عربوں میں محترم شخص کو اس کی کنیت سے پکارا جاتا تھا۔ (۴)خطبے کا مختصر ہونا عقل مندی ہے مگر یہ مطلب نہیں کہ نماز سے مختصر ہو بلہ عام خطبوں سے مختصر ہونا مراد ہے کیونکہ خطبے اور نماز کے بعد عرفے میں وقوف شروع ہوتا ہے جس میں مغرب تک اذکار، دعائیں اور استغفار ہوتے ہیں، لہٰذا خطبہ مختصر ہونے سے وقوف جلدی شروع ہوگا جو کہ مستحب ہے۔ (۵) حاکم وقت دین کے معاملے میں اہل علم کی رائے پر عمل کرے گا۔ (۶) شاگرد استاد کی موجودگی میں فتویٰ دے سکتا ہے۔ (۷) فاجر حاکم کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔