سنن النسائي - حدیث 3006

الْمَوَاقِيتِ مَا ذُكِرَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً مِنْ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمْ الْمَلَائِكَةَ وَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ يُونُسَ بْنَ يُوسُفَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ مَالِكٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 3006

کتاب: مواقیت کا بیان یوم عرفہ کی فضیلت کے بارے میں جو ذکر کیا گیا ہے حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یوم عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ زیادہ غلام لونڈیاں آگ سے آزاد کرتا ہو۔ اس دن اللہ تعالیٰ مزید قریب آجاتا ہے، پھر اپنے ان بندوں (حجاج کرام) کی بنا پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ ابوعبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ) بیان کرتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ (سند میں ابن المسیب کے شاگرد) یونس سے مراد یونس بن یوسف ہوں جن سے امام مالک رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
تشریح : (۱) ’’غلام لونڈیاں‘‘ مراد عام مرد و عورت ہیں کیونکہ سب انسان اللہ تعالیٰ کے لیے غلام لونڈیاں ہی ہیں۔ (۲) ’’آگ سے آزاد‘‘ یعنی جن کے لیے گناہوں کی وجہ سے آگ مقدر تھی، اللہ تعالیٰ ان کے لیے معافی فرماتا ہے۔ نتیجتاً وہ قیامت کے دن آگ سے بچ جائیں گے۔ چونکہ معافی یوم عرفہ کو ہوتی ہے، اس لیے آزادی کی نسبت اس کی طرف کر دی ورنہ اصل آزادی تو قیامت کے دن ہوگی۔ ممکن ہے فوت شدگان کو بھی اللہ تعالیٰ اس دن عذاب قبر سے معافی اور آزادی عطا فرماتا ہو۔ (۳) ’’مزید قریب‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے افعال و صفات میں مختار ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے قژریب آنے میں کوئی اشکال نہیں جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔ بعض حضرات نے چند مزعومہ اور بے بنیاد اصولوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو اتنا مجبور و بے بس (معاذ اللہ) بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی کرنے کی ممنوع سمجھتے ہیں۔ ہمارا اللہ گناہ گاروں کا رب اور بے بسوں کا رب، سب مخلوق کا رب اتنا بے بس اور مجبور نہیں ہو سکتا کہ نہ وہ کسی پر ترس کھا سکے، نہ کسی سے سرگوشی کر سکے، نہ کلام کر سکے، نہ خوش ہو سکے، نہ قریب آسکے اور نہ عرش پر فروخش ہو سکے، لہٰذا تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں، ہاں جب اللہ تعالیٰ قریب ہوگا تو رحمت الٰہی خواہ مخواہ قریب ہوگی۔ اس کا انکار نہیں۔ (۱) ’’غلام لونڈیاں‘‘ مراد عام مرد و عورت ہیں کیونکہ سب انسان اللہ تعالیٰ کے لیے غلام لونڈیاں ہی ہیں۔ (۲) ’’آگ سے آزاد‘‘ یعنی جن کے لیے گناہوں کی وجہ سے آگ مقدر تھی، اللہ تعالیٰ ان کے لیے معافی فرماتا ہے۔ نتیجتاً وہ قیامت کے دن آگ سے بچ جائیں گے۔ چونکہ معافی یوم عرفہ کو ہوتی ہے، اس لیے آزادی کی نسبت اس کی طرف کر دی ورنہ اصل آزادی تو قیامت کے دن ہوگی۔ ممکن ہے فوت شدگان کو بھی اللہ تعالیٰ اس دن عذاب قبر سے معافی اور آزادی عطا فرماتا ہو۔ (۳) ’’مزید قریب‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے افعال و صفات میں مختار ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے قژریب آنے میں کوئی اشکال نہیں جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔ بعض حضرات نے چند مزعومہ اور بے بنیاد اصولوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو اتنا مجبور و بے بس (معاذ اللہ) بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی کرنے کی ممنوع سمجھتے ہیں۔ ہمارا اللہ گناہ گاروں کا رب اور بے بسوں کا رب، سب مخلوق کا رب اتنا بے بس اور مجبور نہیں ہو سکتا کہ نہ وہ کسی پر ترس کھا سکے، نہ کسی سے سرگوشی کر سکے، نہ کلام کر سکے، نہ خوش ہو سکے، نہ قریب آسکے اور نہ عرش پر فروخش ہو سکے، لہٰذا تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں، ہاں جب اللہ تعالیٰ قریب ہوگا تو رحمت الٰہی خواہ مخواہ قریب ہوگی۔ اس کا انکار نہیں۔