كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَاب كَيْفَ يَسْتَاكُ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَسْتَنُّ وَطَرَفُ السِّوَاكِ عَلَى لِسَانِهِ وَهُوَ يَقُولُ عَأْ عَأْ
کتاب: طہارت سے متعلق احکام و مسائل
مسواک کیسے کرے؟
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ دانت صاف فرما رہے تھے اور مسواک کا سرا آپ کی زبان مبارک پر تھا اور آپ [عَأُ عَأُ] کر رہے تھے۔
تشریح :
(۱) مسواک کا مقصد منہ کی صفائی ہے، لہٰذا مسواک اس انداز سے کی جائے کہ نہ صرف دانتوں کی صفائی ہو، بلکہ زبان اور حلق بھی ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہو جائیں۔ (۲) مسواک کرتے وقت اگرچہ چہرہ متغیر ہونے کا امکان ہوتا ہے، مگر اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے اور نہ اسے خلاف مروت اور اپنی شخصیت کے خلاف ہی سمجھنا چاہیے بلکہ بلاجھجک ہر کسی کے سامنے مسواک کی جا سکتی ہے۔
(۱) مسواک کا مقصد منہ کی صفائی ہے، لہٰذا مسواک اس انداز سے کی جائے کہ نہ صرف دانتوں کی صفائی ہو، بلکہ زبان اور حلق بھی ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہو جائیں۔ (۲) مسواک کرتے وقت اگرچہ چہرہ متغیر ہونے کا امکان ہوتا ہے، مگر اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے اور نہ اسے خلاف مروت اور اپنی شخصیت کے خلاف ہی سمجھنا چاہیے بلکہ بلاجھجک ہر کسی کے سامنے مسواک کی جا سکتی ہے۔