سنن النسائي - حدیث 2996

الْمَوَاقِيتِ الْخُطْبَةُ قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى أَبِي قُرَّةَ مُوسَى بْنِ طَارِقٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَجَعَ مِنْ عُمْرَةِ الْجِعِرَّانَةِ بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ عَلَى الْحَجِّ فَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْعَرْجِ ثَوَّبَ بِالصُّبْحِ ثُمَّ اسْتَوَى لِيُكَبِّرَ فَسَمِعَ الرَّغْوَةَ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَوَقَفَ عَلَى التَّكْبِيرِ فَقَالَ هَذِهِ رَغْوَةُ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَاءِ لَقَدْ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُصَلِّيَ مَعَهُ فَإِذَا عَلِيٌّ عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ أَمِيرٌ أَمْ رَسُولٌ قَالَ لَا بَلْ رَسُولٌ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَاءَةَ أَقْرَؤُهَا عَلَى النَّاسِ فِي مَوَاقِفِ الْحَجِّ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمٍ قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا ثُمَّ خَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا ثُمَّ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَأَفَضْنَا فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو بَكْرٍ خَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ إِفَاضَتِهِمْ وَعَنْ نَحْرِهِمْ وَعَنْ مَنَاسِكِهِمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّفْرِ الْأَوَّلُ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ كَيْفَ يَنْفِرُونَ وَكَيْفَ يَرْمُونَ فَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ بَرَاءَةٌ عَلَى النَّاسِ حَتَّى خَتَمَهَا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ ابْنُ خُثَيْمٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَإِنَّمَا أَخْرَجْتُ هَذَا لِئَلَّا يُجْعَلَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ وَمَا كَتَبْنَاهُ إِلَّا عَنْ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ لَمْ يَتْرُكْ حَدِيثَ ابْنِ خُثَيْمٍ وَلَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَّا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ قَالَ ابْنُ خُثَيْمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَكَأَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ خُلِقَ لِلْحَدِيثِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2996

کتاب: مواقیت کا بیان یوم ترویہ(آٹھ ذوالحجہ) سے ایک دن سے قبل خطبہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب عمرہ جعرانہ سے واپس تشریف لائے تو آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ ہم بھی ان کے ساتھ گئے حتی کہ جب آپ عرج مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے تو صبح کی اقامت کہی گئی۔ آپ تکبیر تحریمہ کہنے کے لیے سیدھے ہوئے تو آپ نے اپنے پیچھے سے اونٹ کے بلبلانے کی آواز سنی۔ آپ تکبیر کہنے سے رک گئے اور کہنے لگے: یہ رسول اللہﷺ کی اونٹنی جدعاء کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہﷺ کا خیال بھی حج کا ہو گیا ہے اور کہیں رسول اللہﷺ تشریف ہی نہ لے آئے ہوں، (ایسی صورت میں) ہم آپ کے پیچھے ہی نماز پڑھیں گے، لیکن (قافلہ آنے پر پتا چلا کہ) اس اونٹنی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سوار تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ امیر بن کر آئے ہیں یا قاصد ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں بلکہ قاصد ہوں۔ رسول اللہﷺ نے مجھے اعلان براء ت کے لیے بھیجا ہے کہ میں وہ آیات (سورئہ براء ت) حج (و عمرہ) کے وقوف کی جگہوں پر لوگوں کو پڑھ کر سنا دوں، پھر ہم مکہ آئے، چنانچہ جب یوم ترویہ کو ایک دن رہ گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں، پھر ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کو چلے حتی کہ جب عرفہ (نو ذوالحجہ) کا دن ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھے اور لوگوں سے خطاب فرمایا اور لوگوں کو حج کی عبادات کے طریقے بتلائے حتی کہ جب آپ فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں، پھر قربانیوں والا دن (دس ذوالحجہ) ہوا تو ہم نے طواف افاضہ کیا۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (طواف سے) واپس لوٹے تو لوگوں سے خطاب فرمایا اور انھیں مزدلفہ سے لوٹنے، قربانیاں کرنے اور دوسری عبادات حج کے طریقے بیان کیے۔ جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں۔ جب منیٰ سے واپسی کا پہلا دن ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، لوگوں سے خطاب فرمایا اور انھیں بتایا کہ وہ کیسے واپس جائیں اور کیسے رمی کریں گے۔ اسی طرح انھیں مناسک حج کی تعلیم دی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی) بیان کرتے ہیں: عبداللہ بن عثمان بن خثیم علی حدیث میں قوی نہیں۔ میں نے ان کی حدیث صرف اس لیے بیان کی ہے کہ کہیں ابن جریج عن ابی الزبیر کی سند کو صحیح نہ سمجھ لیا جائے۔ میں نے یہ حدیث (ابن خثیم کے واسطے والی) صرف اسحق بن راہویہ بن ابراہیم سے لکھی ہے۔ ویسے یحییٰ بن سعید قطان اور عبدالرحمن بن مہدی نے بن خثیم کی حدیث کو سرے سے متروک قرار نہیں دیا، البتہ علی بن مدینی نے فرمایا ہے کہ ابن خثیم کی حدیث منکر (ضعیف) ہوتی ہے۔ اور امام علی بن مدینی کا مرتبہ یہ ہے کہ گویا وہ صرف علم حدیث ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
تشریح : (۱) بعض محدثین نے یہ روایت ابن خثیم کے واسطے کے بغیر بیان کی ہے لیکن اس صورت میں یہ روایت منقطع بنتی ہے کیونکہ ابن جریج ابو الزبیر کا نام لے کر ایسی روایات بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے ان سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔ اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ واسطے والی روایت بیان کی ہے۔ واسطے والا راوی ابن خثیم متکلم فیہ ہے۔ امام علی بن مدینی جیسے عظیم الشان امام نے ان کے ضعیف ہونے کی صراحت فرمائی ہے، لیکن بعض محققین نے اسے ابن خثیم کی بجائے صرف ابو زبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ بہرحال یہ روایت ضعیف ہے۔ واللہ اعلم (۲) ’’امیر حج بنا کر بھیجا‘‘ یہ عمرہ جعرانہ کے فوراً بعد کی بات نہیں بلکہ اگلے سال ۹ ہجری ذوالقعدہ کی بات ہے۔ (۳) ’’عرج‘‘ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک بستی یا پہاڑ کا نام ہے۔ (۴) ’’قاصد‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ برائت کا اعلان ایسا اہم اعلان تھا کہ یا تو رسول اللہﷺ خود فرماتے یا آپ کا کوئی رشتے دار۔ (۴) براء ت کی آیات‘‘ اس سے مراد سورۃ التوبہ کا ابتدائی رکوع ہے جس میں مشرکین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب عرب میں تمہارا کردار ختم ہو چکا ہے۔ چار ماہ بلکہ حرمت والے مہینوں کے اختتام تک سوچ سمجھ لو۔ مسلمان ہو جاؤ یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ یا عرب خالی کر دو۔ نتیجتاً سب لوگ مسلمان ہوگئے اور عرب شرک سے خالی ہوگیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۹۶۰، ۲۹۶۱) (۶) ’’یوم ترویہ‘‘ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ۔ یوم ترویہ سے ایک دن قبل خطبہ حج کا حصہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ پہلا حج تھا، لوگ ناواقف تھے، اس لیے بار بار خطاب کی ضرورت پڑی۔ حج کا اصل خطبہ یوم عرفہ ہی میں ہے۔ باقی ضرورت پر موقوف ہیں۔ (۷) یوم عرفہ سے مراد ۹ تاریخ، یوم نحر سے ۱۰ تاریخ اور واپسی کے پہلے دن سے مراد ۱۲ ذوالحجہ اور واپسی کے دوسرے دن سے مراد ۱۳ تاریخ ہے۔ ۱۱، ۱۲، ۱۳ کو ایام تشریق کہتے ہیں۔ (۱) بعض محدثین نے یہ روایت ابن خثیم کے واسطے کے بغیر بیان کی ہے لیکن اس صورت میں یہ روایت منقطع بنتی ہے کیونکہ ابن جریج ابو الزبیر کا نام لے کر ایسی روایات بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے ان سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔ اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ واسطے والی روایت بیان کی ہے۔ واسطے والا راوی ابن خثیم متکلم فیہ ہے۔ امام علی بن مدینی جیسے عظیم الشان امام نے ان کے ضعیف ہونے کی صراحت فرمائی ہے، لیکن بعض محققین نے اسے ابن خثیم کی بجائے صرف ابو زبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ بہرحال یہ روایت ضعیف ہے۔ واللہ اعلم (۲) ’’امیر حج بنا کر بھیجا‘‘ یہ عمرہ جعرانہ کے فوراً بعد کی بات نہیں بلکہ اگلے سال ۹ ہجری ذوالقعدہ کی بات ہے۔ (۳) ’’عرج‘‘ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک بستی یا پہاڑ کا نام ہے۔ (۴) ’’قاصد‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ برائت کا اعلان ایسا اہم اعلان تھا کہ یا تو رسول اللہﷺ خود فرماتے یا آپ کا کوئی رشتے دار۔ (۴) براء ت کی آیات‘‘ اس سے مراد سورۃ التوبہ کا ابتدائی رکوع ہے جس میں مشرکین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب عرب میں تمہارا کردار ختم ہو چکا ہے۔ چار ماہ بلکہ حرمت والے مہینوں کے اختتام تک سوچ سمجھ لو۔ مسلمان ہو جاؤ یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ یا عرب خالی کر دو۔ نتیجتاً سب لوگ مسلمان ہوگئے اور عرب شرک سے خالی ہوگیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۹۶۰، ۲۹۶۱) (۶) ’’یوم ترویہ‘‘ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ۔ یوم ترویہ سے ایک دن قبل خطبہ حج کا حصہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ پہلا حج تھا، لوگ ناواقف تھے، اس لیے بار بار خطاب کی ضرورت پڑی۔ حج کا اصل خطبہ یوم عرفہ ہی میں ہے۔ باقی ضرورت پر موقوف ہیں۔ (۷) یوم عرفہ سے مراد ۹ تاریخ، یوم نحر سے ۱۰ تاریخ اور واپسی کے پہلے دن سے مراد ۱۲ ذوالحجہ اور واپسی کے دوسرے دن سے مراد ۱۳ تاریخ ہے۔ ۱۱، ۱۲، ۱۳ کو ایام تشریق کہتے ہیں۔