سنن النسائي - حدیث 2992

الْمَوَاقِيتِ كَيْفَ يُقَصِّرُ شاذ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ أَخَذْتُ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ كَانَ مَعِي بَعْدَ مَا طَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ قَالَ قَيْسٌ وَالنَّاسُ يُنْكِرُونَ هَذَا عَلَى مُعَاوِيَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2992

کتاب: مواقیت کا بیان بال کیسے کاٹے؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ بیت اللہ اور صفا ومروہ کے طواف سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ کے بالوں کے کنارے اپنے ایک تیرے سے کاٹے تھے۔ اور یہ ذوالحجہ کے پہلے دہاکے کی بات ہے۔ راوی قیس نے کہا: علماء حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کو درست نہیں سمجھتے۔
تشریح : (۱) علماء کے انکار کا تعلق ذوالحجہ کے پہلے دہاکے سے ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے حج والے عمرے کے علاوہ تمام عمرے ذوالقعدہ میں کیے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا آپ کی حجامت بنانا عمرہ جعرانہ کی بات ہو سکتی ہے جو بالاتفاق ذوالقعدہ میں ہوا۔ ذوالحجہ میں تو آپ نے حج کیا ہے اور حج میں آپ نے منیٰ میں حجامت کروائی تھی کیونکہ حج میں حجامت کے لیے منیٰ مقرر ہے، مروہ نہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے حج میں تقصیر نہیں حلق کروایا تھا، اس لیے ’’فی ایام العشر‘‘ کا اضافہ شاذ ہے کیونکہ ان الفاظ کو بیان کرنے میں قیس بن سعد متفرد ہے۔ یہ روایت طاؤس سے بھی مروی ہے۔ وہ یہ الفاظ ذکر نہیں کرتے، ان الفاظ کو بیان کرنے میں قیس کو غلطی لگی ہے۔ (۲) محقق کتاب نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے جبکہ فی نفسہٖ اس حدیث کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ عطاء یہاں معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر رہے ہیں جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں بلکہ انھوں نے اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ روایت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جیسا کہ مسند امام احمد: (۴/ ۹۵) میں اس کی صراحت ہے۔ اور اس کی سند متصل اور صحیح ہے، لہٰذا یہ حدیث ’’فی ایام العشر‘‘ کے اضافے کے بغیر صحیح لغیرہ ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کا اس کی سند کو صحیح کہنا محل نظر ہے۔ واللہ اعلم (۳) ’’اپنے تیر سے‘‘ اصل میں تیر کسی اعرابی کا تھا۔ جب اس سے لے لیا تو وقتی طور پر ان کا بن گیا، اس لیے اپنا کہا۔ (۱) علماء کے انکار کا تعلق ذوالحجہ کے پہلے دہاکے سے ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے حج والے عمرے کے علاوہ تمام عمرے ذوالقعدہ میں کیے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا آپ کی حجامت بنانا عمرہ جعرانہ کی بات ہو سکتی ہے جو بالاتفاق ذوالقعدہ میں ہوا۔ ذوالحجہ میں تو آپ نے حج کیا ہے اور حج میں آپ نے منیٰ میں حجامت کروائی تھی کیونکہ حج میں حجامت کے لیے منیٰ مقرر ہے، مروہ نہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے حج میں تقصیر نہیں حلق کروایا تھا، اس لیے ’’فی ایام العشر‘‘ کا اضافہ شاذ ہے کیونکہ ان الفاظ کو بیان کرنے میں قیس بن سعد متفرد ہے۔ یہ روایت طاؤس سے بھی مروی ہے۔ وہ یہ الفاظ ذکر نہیں کرتے، ان الفاظ کو بیان کرنے میں قیس کو غلطی لگی ہے۔ (۲) محقق کتاب نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے جبکہ فی نفسہٖ اس حدیث کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ عطاء یہاں معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر رہے ہیں جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں بلکہ انھوں نے اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ روایت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جیسا کہ مسند امام احمد: (۴/ ۹۵) میں اس کی صراحت ہے۔ اور اس کی سند متصل اور صحیح ہے، لہٰذا یہ حدیث ’’فی ایام العشر‘‘ کے اضافے کے بغیر صحیح لغیرہ ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کا اس کی سند کو صحیح کہنا محل نظر ہے۔ واللہ اعلم (۳) ’’اپنے تیر سے‘‘ اصل میں تیر کسی اعرابی کا تھا۔ جب اس سے لے لیا تو وقتی طور پر ان کا بن گیا، اس لیے اپنا کہا۔