سنن النسائي - حدیث 2967

الْمَوَاقِيتِ الشُّرْبُ مِنْ زَمْزَمَ صحيح أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَنْبَأَنَا عَاصِمٌ وَمُغِيرَةُ ح وَأَنْبَأَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَنْبَأَنَا عَاصِمٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَهُوَ قَائِمٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2967

کتاب: مواقیت کا بیان زمزم کا پانی پینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے زم زم کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔
تشریح : (۱) زم زم مبارک پانی ہے جو دنیا کے ہر پانی سے مختلف ہے۔ خوراک کا فائدہ بھی دیتا ہے اور شفا کا بھی، بلکہ جس نیت کے ساتھ جس مقصد کے لیے بھی پیا جائے، کفایت کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: ۳۰۶۲، ومسند احمد: ۳/ ۳۵۷، ۳۷۲) لہٰذا اسے تبرک سمجھ کر پینا مسنون ہے، بلکہ واپس آتے ہوئے گھروں کو لانا بھی مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مرفوعاً منقول ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذی، الحج، حدیث: ۹۶۳)۔ (۲) بعض کا قول ہے کہ آپ کا کھڑے ہو کر پانی پینا تو مجبوراً تھا کہ نیچے کیچڑ تھا، بیٹھنا ممکن نہیں تھا ورنہ کپڑے خراب ہوتے، لہٰذا اگر ایسی صورت حال ہو کہ بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ ہو تو کھڑے ہو کر کھایا پیا جا سکتا ہے۔ بعض کا موقف ہے کہ کھڑے ہو کر پینا جائز ہے اور آپ کا مذکورہ عمل بیانِ جواز کے لیے تھا، اس کے علاوہ دیگر احادیث میں کھڑے ہو کر پینے سے آپ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ تو حافظ ابن حجر اور دیگر ائمہ کے نزدیک ان احادیث میں مذکور نہی تنزیہ کے لیے ہے، یعنی بہتر یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پانی نہ پیا جائے۔ اور اگر پی بھی لیا جائے تو اس میں مطلقاً حرج والی بات نہیں ہے۔ یہی موقف دلائل کی رو سے مضبوط معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ دیکھیے: (فتح الباری: ۱۰/ ۱۰۴، ۱۰۵) (۱) زم زم مبارک پانی ہے جو دنیا کے ہر پانی سے مختلف ہے۔ خوراک کا فائدہ بھی دیتا ہے اور شفا کا بھی، بلکہ جس نیت کے ساتھ جس مقصد کے لیے بھی پیا جائے، کفایت کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: ۳۰۶۲، ومسند احمد: ۳/ ۳۵۷، ۳۷۲) لہٰذا اسے تبرک سمجھ کر پینا مسنون ہے، بلکہ واپس آتے ہوئے گھروں کو لانا بھی مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مرفوعاً منقول ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذی، الحج، حدیث: ۹۶۳)۔ (۲) بعض کا قول ہے کہ آپ کا کھڑے ہو کر پانی پینا تو مجبوراً تھا کہ نیچے کیچڑ تھا، بیٹھنا ممکن نہیں تھا ورنہ کپڑے خراب ہوتے، لہٰذا اگر ایسی صورت حال ہو کہ بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ ہو تو کھڑے ہو کر کھایا پیا جا سکتا ہے۔ بعض کا موقف ہے کہ کھڑے ہو کر پینا جائز ہے اور آپ کا مذکورہ عمل بیانِ جواز کے لیے تھا، اس کے علاوہ دیگر احادیث میں کھڑے ہو کر پینے سے آپ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ تو حافظ ابن حجر اور دیگر ائمہ کے نزدیک ان احادیث میں مذکور نہی تنزیہ کے لیے ہے، یعنی بہتر یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پانی نہ پیا جائے۔ اور اگر پی بھی لیا جائے تو اس میں مطلقاً حرج والی بات نہیں ہے۔ یہی موقف دلائل کی رو سے مضبوط معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ دیکھیے: (فتح الباری: ۱۰/ ۱۰۴، ۱۰۵)