سنن النسائي - حدیث 2963

الْمَوَاقِيتِ أَيْنَ يُصَلِّي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَقَالَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(الاحزاب:21)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2963

کتاب: مواقیت کا بیان طواف (کے بعد) والی دو رکعات کہاں پڑھے ؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (مکہ مکرمہ) تشریف لائے تو بیت اللہ کے سات چکر لگائے۔ مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں اور صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کی آیت تلاوت فرمائی: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ…} ’’تمھارے لیے رسول اللہﷺ (کے طرز عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
تشریح : آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی دو رکعتیں پڑھنا ضروری ہے۔ اسی لیے آیت میں مذکور حکم کی بنا پر رسول اللہﷺ نے جب بھی طواف کیا تو اس کے بعد دو رکعتوں کا اہتمام فرمایا ہے، گویا آپ کا عمل آیت کے مجمل حکم کی تفصیل اور تفسیر ہے۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ مقام ابراہیم کے پاس ہی ان رکعتوں کا پڑھنا مسنون ہے۔ آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے، ہاں اگر ازدحام ہی اس قدر ہو کہ وہاں نماز پڑھنا مشکل ہو تو پھر اس سے دور ہٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی دو رکعتیں پڑھنا ضروری ہے۔ اسی لیے آیت میں مذکور حکم کی بنا پر رسول اللہﷺ نے جب بھی طواف کیا تو اس کے بعد دو رکعتوں کا اہتمام فرمایا ہے، گویا آپ کا عمل آیت کے مجمل حکم کی تفصیل اور تفسیر ہے۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ مقام ابراہیم کے پاس ہی ان رکعتوں کا پڑھنا مسنون ہے۔ آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے، ہاں اگر ازدحام ہی اس قدر ہو کہ وہاں نماز پڑھنا مشکل ہو تو پھر اس سے دور ہٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم