سنن النسائي - حدیث 2961

الْمَوَاقِيتِ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ {خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ} [الأعراف: 31] صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْمُغِيرَةِ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جِئْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِينَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِبَرَاءَةَ قَالَ مَا كُنْتُمْ تُنَادُونَ قَالَ كُنَّا نُنَادِي إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ أَوْ أَمَدُهُ إِلَى أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِذَا مَضَتْ الْأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ وَلَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ فَكُنْتُ أُنَادِي حَتَّى صَحِلَ صَوْتِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2961

کتاب: مواقیت کا بیان اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’ہر مسجد جاتے وقت زینت اختیار کرو۔‘‘ کی تفسیر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا جبکہ انھیں رسول اللہﷺ نے مکے والوں کی طرف سے براء ت کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ شاگرد نے کہا: آپ کی اعلان فرماتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہم اعلان کرتے تھے کہ مومن کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا۔ جس شخص کا رسول اللہﷺ کے ساتھ صلح کا کوئی معاہدہ ہے تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ جب چار ماہ گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ مشرکین (کے ساتھ ہر قسم کے معاہدہ صلح) سے لا تعلق ہوں گے اور کوئی مشرک اس سال کے بعد حج کرنے نہیں آئے گا۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) میں یہ اعلانات کرتا رہا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
تشریح : (۱) یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ اس موقع پر امیر حج تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر ’’براء ت کا اعلان‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی ذمے داری تھی کیونکہ اس قبائلی دور میں عہد کے متعلق کوئی اعلان نبیﷺ کا خاندانی شخص ہی کر سکتا تھا ورنہ مشرکین اسے معتبر نہ سمجھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آپ کے ساتھ رشتے داری سے سب لوگ واقف تھے، لہٰذا اس اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا گیا۔ دیگر اعلانات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی سے کروائے، لہٰذا سابقہ حدیث اور اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں۔ (۲) ’’چار ماہ‘‘ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان سے چار ماہ شمار ہوں گے لیکن بعض محققین نے براء ت کی آیت کے نزول سے چار ماہ شمار کیے ہیں، یعنی شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ آیت کے آئندہ الفاظ {فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ…} (التوبۃ ۹: ۵) اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی بات صحیح ہے۔ (۳) اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر عہد کی مدت چار ماہ مقرر فرما دی لیکن یہ بات درست نہیں۔ یا تو راوی کو غلطی لگی یا ضرورت سے زیادہ اختصار ہوگیا۔ دیگر احادیث میں وضاحت ہے کہ اعلان یوں تھا: ’’جس شخص کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ اپنی مقررہ مدت تک برقرار ہے۔ اور جس کے ساتھ آپ کا کوئی عہد نہیں (یا جس کی مدت مقرر نہیں) وہ چار ماہ تک امن میں ہے۔‘‘ دیکھیے: (جامع الترمذی، باب ومن سورۃ التوبۃ، حدیث: ۳۰۹۲) مزید ملاحظہ ہو: (تفسیر ابن کثیر، سورۂ توبہ، آیت: ۲، تحت الآیۃ {فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ} یعنی اس کے بعد مشرکین سے عام لڑائی ہے۔ ویسے بھی یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سے کیے ہوئے عہد کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیں۔ رسول اللہﷺ تو عہد کی بہت زیادہ پاسدار فرمانے والے تھے۔ ﷺ (۱) یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ اس موقع پر امیر حج تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر ’’براء ت کا اعلان‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی ذمے داری تھی کیونکہ اس قبائلی دور میں عہد کے متعلق کوئی اعلان نبیﷺ کا خاندانی شخص ہی کر سکتا تھا ورنہ مشرکین اسے معتبر نہ سمجھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آپ کے ساتھ رشتے داری سے سب لوگ واقف تھے، لہٰذا اس اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا گیا۔ دیگر اعلانات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی سے کروائے، لہٰذا سابقہ حدیث اور اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں۔ (۲) ’’چار ماہ‘‘ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان سے چار ماہ شمار ہوں گے لیکن بعض محققین نے براء ت کی آیت کے نزول سے چار ماہ شمار کیے ہیں، یعنی شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ آیت کے آئندہ الفاظ {فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ…} (التوبۃ ۹: ۵) اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی بات صحیح ہے۔ (۳) اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر عہد کی مدت چار ماہ مقرر فرما دی لیکن یہ بات درست نہیں۔ یا تو راوی کو غلطی لگی یا ضرورت سے زیادہ اختصار ہوگیا۔ دیگر احادیث میں وضاحت ہے کہ اعلان یوں تھا: ’’جس شخص کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ اپنی مقررہ مدت تک برقرار ہے۔ اور جس کے ساتھ آپ کا کوئی عہد نہیں (یا جس کی مدت مقرر نہیں) وہ چار ماہ تک امن میں ہے۔‘‘ دیکھیے: (جامع الترمذی، باب ومن سورۃ التوبۃ، حدیث: ۳۰۹۲) مزید ملاحظہ ہو: (تفسیر ابن کثیر، سورۂ توبہ، آیت: ۲، تحت الآیۃ {فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ} یعنی اس کے بعد مشرکین سے عام لڑائی ہے۔ ویسے بھی یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سے کیے ہوئے عہد کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیں۔ رسول اللہﷺ تو عہد کی بہت زیادہ پاسدار فرمانے والے تھے۔ ﷺ