سنن النسائي - حدیث 2960

الْمَوَاقِيتِ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ {خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ} [الأعراف: 31] صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ بَعَثَهُ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي أَمَّرَهُ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فِي رَهْطٍ يُؤَذِّنُ فِي النَّاسِ أَلَا لَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2960

کتاب: مواقیت کا بیان اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’ہر مسجد جاتے وقت زینت اختیار کرو۔‘‘ کی تفسیر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حجۃ الوداع سے قبل اس حج میں جس میں رسول اللہﷺ نے انھیں امیر حج مقرر فرمایا تھا، مجھے کچھ اور لوگوں کے ساتھ یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ خبردار! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا اور نہ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف کر سکے گا۔
تشریح : یہ ۹ ہجری کی بات ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ ۸ ہجری کے حج سے قبل فتح ہو چکا تھا مگر اس سال نہ تو رسول اللہﷺ نے خود حج کیا اور نہ کسی کو امیر حج مقرر فرمایا بلکہ آپ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حج ہوا لیکن یہ حج سابقہ طریقے کے مطابق کیا گیا کیونکہ ابھی حج کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی فصیل نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ بہت سے محققین کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہی ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ ۹ ہجری میں نبیﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں نے ان کی سرکردگی میں اسلامی طریقے کے مطابق حج کیا مگر اس سال کافر بھی بڑی تعداد میں حج کرنے آئے تھے۔ انھوں نے اپنے طریقے کے مطابق حج کیا۔ نبیﷺ کے حکم کے مطابق منیٰ میں جگہ جگہ اعلانات کر دیئے گئے کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ ۱۰ ہجری میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ تقریباً تمام مسلمان بھی موجود تھے۔ آپ نے خالص اسلامی طریقے کے مطابق حج کروایا۔ اس سال کوئی مشرک موجود نہ تھا۔ یہ نبیﷺ کی زندگی کا بھی آخری سال تھا۔ تین ماہ بعد آپ اپنے ’’رفیق اعلیٰ‘‘ سے جا ملے۔ فداہ نفسی وروحی وابی وامی۔ یہ ۹ ہجری کی بات ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ ۸ ہجری کے حج سے قبل فتح ہو چکا تھا مگر اس سال نہ تو رسول اللہﷺ نے خود حج کیا اور نہ کسی کو امیر حج مقرر فرمایا بلکہ آپ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حج ہوا لیکن یہ حج سابقہ طریقے کے مطابق کیا گیا کیونکہ ابھی حج کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی فصیل نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ بہت سے محققین کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہی ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ ۹ ہجری میں نبیﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں نے ان کی سرکردگی میں اسلامی طریقے کے مطابق حج کیا مگر اس سال کافر بھی بڑی تعداد میں حج کرنے آئے تھے۔ انھوں نے اپنے طریقے کے مطابق حج کیا۔ نبیﷺ کے حکم کے مطابق منیٰ میں جگہ جگہ اعلانات کر دیئے گئے کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ ۱۰ ہجری میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ تقریباً تمام مسلمان بھی موجود تھے۔ آپ نے خالص اسلامی طریقے کے مطابق حج کروایا۔ اس سال کوئی مشرک موجود نہ تھا۔ یہ نبیﷺ کی زندگی کا بھی آخری سال تھا۔ تین ماہ بعد آپ اپنے ’’رفیق اعلیٰ‘‘ سے جا ملے۔ فداہ نفسی وروحی وابی وامی۔