الْمَوَاقِيتِ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ {خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ} [الأعراف: 31] صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ مُسْلِمًا الْبَطِينَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَتْ الْمَرْأَةُ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَهِيَ عُرْيَانَةٌ تَقُولُ الْيَوْمَ يَبْدُو بَعْضُهُ أَوْ كُلُّهُ وَمَا بَدَا مِنْهُ فَلَا أُحِلُّهُ قَالَ فَنَزَلَتْ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
کتاب: مواقیت کا بیان
اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’ہر مسجد جاتے وقت زینت اختیار کرو۔‘‘ کی تفسیر
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (دور جاہلیت میں کبھی کبھار) کوئی عورت ننگی بیت اللہ کا طواف کرتی اور یوں کہتی: آج (بغرض طواف) میری کچھ یا پوری شرمگاہ ننگی ہوگی۔ (اور اگر ایسا ہو تو) میں کسی کے لیے اس کی طرف نظر کرنا مباح قرار نہیں دیتی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بنا بریں یہ آیت اتری:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ}
’’اے بنی آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت زینت اختیار کرو (پورا لباس پہنا کرو)۔‘‘
تشریح :
(۱) ننگے طواف کرنا یا تو بطور نذر ہوتا تھا یا اس تصور سے کہ ہم ان کپڑوں میں گناہ کرتے رہے ہیں، لہٰذا ان میں طواف مناسب نہیں، اس لیے وہ اپنے کپڑوں کے بجائے ساکنین حرم کے کپڑوں میں طواف کرتے تھے (کیونکہ وہ انھیں مقدس سمجھتے تھے)۔ اگر ان سے کپڑے نہ ملتے تو رات کے اندھیرے میں یا دوپہر کے وقت آنکھ بچا کر ننگے بدن طواف کر لیتے تھے۔ اور اس کے ساتھ وہ زبان سے مذکورہ بالا اعلان اشعار کی صورت میں کرتے تاکہ اگر کوئی اتفاقاً ادھر آنکلے تو منہ دوسری طرف پھیر لے اور اس کی نظر نہ پڑے۔ (۲) ’’ہر مسجد میں‘‘ یعنی صرف طواف کے لیے ہی لباس پہننا ضروری نہیں بلکہ نماز میں بھی لباس پہننا فرض ہے۔ چونکہ مسجد نماز ہی کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے مسجد کے لفظ سے نماز کی طرف اشارہ ہے۔ ویسے بھی مسجد میں ننگا ہونا منع ہے کیونکہ یہ مسجد کے تقدس کے خلاف ہے۔ (۳) اس آیت مبارکہ میں لباس کے لیے ’’زینت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادات کے دوران میں مکمل اور صاف ستھرا لباس پہننا چاہیے جو حقیقتاً زینت کا سبب ہو اور ساتر ہو، نہ کہ اعضائے مستورہ کی نمازئش اور ترجمانی کرنے والا۔ (۴) زینت کے لفظ سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ نماز میں سر بھی ڈھانپا ہوا ہونا چاہیے کیونکہ لباس، زینت تب ہی بنے گا جب سر بھی ڈھانپا ہوا ہوگا۔ ویسے بھی رسول اللہﷺ عموماً سر کو ڈھانپ کر رکھتے تھے، اس لیے نماز ہی کی حالت میں سر کا ڈھانپنا سنت کے زیادہ قریب نہیں ہے بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ ہی سر کو ڈھانپے رکھنا مسنون عمل ہے۔
(۱) ننگے طواف کرنا یا تو بطور نذر ہوتا تھا یا اس تصور سے کہ ہم ان کپڑوں میں گناہ کرتے رہے ہیں، لہٰذا ان میں طواف مناسب نہیں، اس لیے وہ اپنے کپڑوں کے بجائے ساکنین حرم کے کپڑوں میں طواف کرتے تھے (کیونکہ وہ انھیں مقدس سمجھتے تھے)۔ اگر ان سے کپڑے نہ ملتے تو رات کے اندھیرے میں یا دوپہر کے وقت آنکھ بچا کر ننگے بدن طواف کر لیتے تھے۔ اور اس کے ساتھ وہ زبان سے مذکورہ بالا اعلان اشعار کی صورت میں کرتے تاکہ اگر کوئی اتفاقاً ادھر آنکلے تو منہ دوسری طرف پھیر لے اور اس کی نظر نہ پڑے۔ (۲) ’’ہر مسجد میں‘‘ یعنی صرف طواف کے لیے ہی لباس پہننا ضروری نہیں بلکہ نماز میں بھی لباس پہننا فرض ہے۔ چونکہ مسجد نماز ہی کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے مسجد کے لفظ سے نماز کی طرف اشارہ ہے۔ ویسے بھی مسجد میں ننگا ہونا منع ہے کیونکہ یہ مسجد کے تقدس کے خلاف ہے۔ (۳) اس آیت مبارکہ میں لباس کے لیے ’’زینت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادات کے دوران میں مکمل اور صاف ستھرا لباس پہننا چاہیے جو حقیقتاً زینت کا سبب ہو اور ساتر ہو، نہ کہ اعضائے مستورہ کی نمازئش اور ترجمانی کرنے والا۔ (۴) زینت کے لفظ سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ نماز میں سر بھی ڈھانپا ہوا ہونا چاہیے کیونکہ لباس، زینت تب ہی بنے گا جب سر بھی ڈھانپا ہوا ہوگا۔ ویسے بھی رسول اللہﷺ عموماً سر کو ڈھانپ کر رکھتے تھے، اس لیے نماز ہی کی حالت میں سر کا ڈھانپنا سنت کے زیادہ قریب نہیں ہے بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ ہی سر کو ڈھانپے رکھنا مسنون عمل ہے۔