سنن النسائي - حدیث 2948

الْمَوَاقِيتِ الْعِلَّةُ الَّتِي مِنْ أَجْلِهَا سَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَكَّةَ قَالَ الْمُشْرِكُونَ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ وَلَقُوا مِنْهَا شَرًّا فَأَطْلَعَ اللَّهُ نَبِيَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى ذَلِكَ فَأَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَرْمُلُوا وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ مِنْ نَاحِيَةِ الْحِجْرِ فَقَالُوا لَهَؤُلَاءِ أَجْلَدُ مِنْ كَذَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2948

کتاب: مواقیت کا بیان نبیﷺ نے کس وجہ سے رمل فرمایا تھا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ اور آپ کے صحابہ (عمرۃ القضاء میں) مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے: انھیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے اور ان کی حالت بہت پتلی ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اس بات کی اطلاع فرما دی تو آپ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ رمل کریں، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آہستہ چلیں کیونکہ مشرکین حطیم کی جانب (شمالی جانب) تھے۔ تو مشرکین (انھیں رمل کرتے دیکھ کر) کہنے لگے: یہ تو بہت زیادہ قوی ہیں۔
تشریح : (۱) تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۲۹۴۳۔ اس وقت تو رمل کی یہی وجہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ ادا پسند آگئی تو اسے مستقلاً حج اور عمرے کے طواف میں داخل کر دیا۔ (۲) رمل کا یہ انداز اگرچہ فخر اور تکبر کا انداز ہے، اور اللہ تعالیٰ کو فخر و تکبر پسند نہیں، لیکن کفار کے مقابلے میں میدان جنگ میں اکڑ کر چلنے والا مسلمان اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا لگتا ہے۔ رمل بھی کافروں کو دکھانے بلکہ ڈرانے کے لیے تھا، لہٰذا اس میں بھی اکڑ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو پسند آیا۔ بعد میں یہ سنت جاری ہوگئی جس طرح صفا مروہ کے درمیان سعی اور منیٰ میں قربانی بھی حضرت حاجرہ اور حضرت ابراہیم رحمہم اللہ کی یادگار ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور حج اور عمرے کا حصہ بنا دی گئیں۔ (۳) دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہل اسلام کو بھر پور تیار رکھنی چاہیے اور ہر میدان میں ترقی کی اعلیٰ ترین منازل حاصل کرنی چاہئیں، وہ تعلیم کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحے کا۔ اپنے دفاع کے لیے جسمانی تربیت اور جنگی مشقیں کرتے رہنا چاہیے اور دشمن کو مرعوب رکھنے کے لیے ان صلاحیتوں کا گاہے گاہے اظہار کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے رہے اور وہ کوئی حماقت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ (۱) تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۲۹۴۳۔ اس وقت تو رمل کی یہی وجہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ ادا پسند آگئی تو اسے مستقلاً حج اور عمرے کے طواف میں داخل کر دیا۔ (۲) رمل کا یہ انداز اگرچہ فخر اور تکبر کا انداز ہے، اور اللہ تعالیٰ کو فخر و تکبر پسند نہیں، لیکن کفار کے مقابلے میں میدان جنگ میں اکڑ کر چلنے والا مسلمان اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا لگتا ہے۔ رمل بھی کافروں کو دکھانے بلکہ ڈرانے کے لیے تھا، لہٰذا اس میں بھی اکڑ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو پسند آیا۔ بعد میں یہ سنت جاری ہوگئی جس طرح صفا مروہ کے درمیان سعی اور منیٰ میں قربانی بھی حضرت حاجرہ اور حضرت ابراہیم رحمہم اللہ کی یادگار ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور حج اور عمرے کا حصہ بنا دی گئیں۔ (۳) دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہل اسلام کو بھر پور تیار رکھنی چاہیے اور ہر میدان میں ترقی کی اعلیٰ ترین منازل حاصل کرنی چاہئیں، وہ تعلیم کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحے کا۔ اپنے دفاع کے لیے جسمانی تربیت اور جنگی مشقیں کرتے رہنا چاہیے اور دشمن کو مرعوب رکھنے کے لیے ان صلاحیتوں کا گاہے گاہے اظہار کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے رہے اور وہ کوئی حماقت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔