سنن النسائي - حدیث 2947

الْمَوَاقِيتِ الرَّمَلُ مِنَ الْحِجْرِ إِلَى الْحِجْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ مِنْ الْحِجْرِ إِلَى الْحِجْرِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2947

کتاب: مواقیت کا بیان حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا جائے گا حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل فرمایا حتی کہ تین چکر پورے ہوگئے۔
تشریح : (۱) ’’حجر سے حجر تک‘‘ یعنی پورے چکر میں رمل کرنا ہوگا۔ اگرچہ عمرۃ القضا میں جب رمل کی ابتدا ہوئی تھی، رمل تین جانب کیا گیا تھا۔ جنوبی جانب چونکہ کفار سے اوجھل تھی، لہٰذا وہاں صحابہ رمل نہ کرتے تھے، پھر جب رمل کو شرعی حیثیت دے دی گئی تو اسے پہلے طواف کے پہلے تین مکمل چکروں میں مقرر کر دیا گیا۔ یہ تین چکروں میں کیا جائے گا مگر مکمل چکر میں۔ (۲) رمل مسنون ہے، لہٰذا حتی الامکان رمل کرنا چاہیے، البتہ اگر اس قدر رش ہو کہ رمل ممکن نہ ہو تو جہاں جگہ ملے، رمل کر لے۔ جہاں جگہ نہ ملے، وہاں مجبوری ہے۔ رمل کی قضا ہے نہ کوئی فدیہ۔ اگر کوئی بھول جائے یا اسے علم نہ ہو، یا رش، کمزوری یا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکے تو آخری تین چکروں میں یا کسی دوسرے طواف میں قضا نہ کی جائے گی اور نہ اس پر کوئی فدیہ ہی ہوگا۔ (۱) ’’حجر سے حجر تک‘‘ یعنی پورے چکر میں رمل کرنا ہوگا۔ اگرچہ عمرۃ القضا میں جب رمل کی ابتدا ہوئی تھی، رمل تین جانب کیا گیا تھا۔ جنوبی جانب چونکہ کفار سے اوجھل تھی، لہٰذا وہاں صحابہ رمل نہ کرتے تھے، پھر جب رمل کو شرعی حیثیت دے دی گئی تو اسے پہلے طواف کے پہلے تین مکمل چکروں میں مقرر کر دیا گیا۔ یہ تین چکروں میں کیا جائے گا مگر مکمل چکر میں۔ (۲) رمل مسنون ہے، لہٰذا حتی الامکان رمل کرنا چاہیے، البتہ اگر اس قدر رش ہو کہ رمل ممکن نہ ہو تو جہاں جگہ ملے، رمل کر لے۔ جہاں جگہ نہ ملے، وہاں مجبوری ہے۔ رمل کی قضا ہے نہ کوئی فدیہ۔ اگر کوئی بھول جائے یا اسے علم نہ ہو، یا رش، کمزوری یا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکے تو آخری تین چکروں میں یا کسی دوسرے طواف میں قضا نہ کی جائے گی اور نہ اس پر کوئی فدیہ ہی ہوگا۔